Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کو بچانے کی تیاریاں

وزیراعظم شاہد خاقان کے دورہ امریکہ اور شہبازشریف کے دورۂ برطانیہ کا کیا مطلب لیا جائے ، نوازشریف کے حق میں جانے والا کیس پھر الجھن کا شکار ہو گیا
صلاح الدین حیدر ۔۔  بیوروچیف ۔۔ کراچی
 پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مبہم اور الجھا ہوا نظر آتاہے۔ اگر وزیرا عظم کی چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بن گئی ہے، تو دوسری طرف کچھ اس قسم کے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ شاید نواز شریف مہینوں کی مشکلات سے باہر نکل آئیں۔ وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ، لیکن گھر گھر چرچا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کا دورہ امریکا نجی ہی صحیح ، لیکن کچھ خفیہ مقاصدکا حامی تھا۔ بالکل اسی طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی علاج کی خاطر لندن کا نجی دورہ کیا اور انگلستان میں قیام کے دوران برطانیہ کے داخلہ سیکریٹری سے ملاقات کی۔ کیا ہوا یہ تو غیب کو ہی علم ہوگا، لیکن جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں چنگاری تو ہوتی ہی ہے، بہت سے گہری نظر رکھنے والے ناظرین اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنے دورۂ امریکا میں وائس پریذنڈنٹ مائیک پینس سے ملاقات کی۔ 40منٹ کی یہ ملاقات کافی تگ و دو کے بعد ممکن ہوئی، اس میں پاکستان فارن منسٹری ، پاکستان کے امریکہ میں سفیراعزاز چوہدری اور سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کافی کام کیاتب کہیںمائیک پینس پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے تیار ہوئے۔ عمومی طور پر یہ کہا جارہاہے شاہدخاقان عباسی نے امریکا کو پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی کہ کسی طرح نواز شریف کو جیل جانے سے بچالیا جائے۔ جواب کیا ملا اس کا تو علم نہیں، لیکن امریکا ٹرمپ کے منصب سنبھالنے کے بعد پاکستانیوں سے خاصا شاکی نظر آتاہے، ایسے میں پاکستانی درخواست وہ بھی اندرونی معاملات میں خاصی مشکل نظر آتی ہے۔ پہلے بھی ایک مسئلہ موجود ہے جب بے نظیر کو اس وقت کے صدر مملکت مرحوم غلام اسحاق خان نے آئین کی شق58-(2)Bکے تحت منصب اعلیٰ سے اتار نے کا  سوچا تو بے نظیر نے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ٹیلی فون پر شکایت کی کہ مسٹر پریذنڈنٹ یہ مجھے اقتدار سے ہٹا رہے ہیں ۔دوسری طرف سے صرف یہ آواز سنائی دی لیڈی ( I can't hear you )  مجھے آپ کی آواز نہیں آرہی ہے، گویا کہ بات کو ٹال دیا گیا۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہواہو اس لیے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی طرف سے اب بھی شاکی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کی جارہی ہے، ایسے میں بھلا امریکا نواز شریف کو کیوں کر واپس لانے کی سوچے گا۔ اسی طرح کی خبریں شہباز شریف سے بھی منسوب کی جارہی ہیں  کہ انہوں نے دورہ انگلستان میں سیکریٹری داخلہ سے درخواست کی برطانیہ پاکستان پر دبائو ڈال کر نوا زشریف کو بچالے، لیکن جو لوگ مغربی دنیا سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے یہاں اس قسم کی باتوں کو اسی وقت اہمیت دی جاتی ہے ، جب ان کا اپنا کوئی مقصد حل ہورہا ہو۔ اس وقت نہ تو برطانیہ اور نہ امریکا پاکستان کی طرف سے مطمئن نظر آتے ہیں پھر پاکستان کے اندرونی معاملات بھی غیر تسلی بخش ہیں ، تو پھر کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کے معاملات میں اپنے آپ کو الجھائے اور تنقید کو دعوت دے۔ بہرحال نواز شریف اس وقت تو بہت خوش نظر آئے جب جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے تسلی بخش جواب نواز شریف کے وکیل حارث کی جرح  کے دوران نہیں دئیے،خود نواز شریف نے احتساب عدالت سے باہر آکر کہا کہ واجد ضیا ء نے مجھے سرخرو کردیا ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہمارے خلاف کوئی کیس نہیں ہے، اگر الجھنا نہیں ہے تو مجھے کوٹیکنا ،NICL  تیل بردار جہاز جیسے کیس میں الجھا یاجائے تاکہ بات سمجھ میں آئے، لیکن ایسا تو نہیں ہورہاہے۔مگر صرف 24گھنٹے بعد یعنی جمعرات 29مارچ کو واجد ضیا نے نوا ز شریف کے وکیل حارث کی جرح کے دوران کافی کچھ رخ اپنی طرف موڑ لیا۔ ایک ایسا کیس جو کہ نواز شریف کے حق میں پلٹتا نظر آرہا تھا، ایک بار پھر الجھن کا شکار ہوگیا۔ ایک بات ذہن نشین کرنی پڑے گی کہ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر جو کہ ایک عرصہ تک خاندان سے دور رکھے گئے تھے، انہیں پنجاب ہاؤ س میں 15سو ریال ماہانہ پر گزارا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا ، اب خاندان کا حصہ نظر آتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے وہ فروری کے مہینے میں میانوالی میں لکھی گئی، مریم نواز نے بھی کچھ اسی طرح کے الزامات سے جے آئی ٹی کو نواز اکہ پانچ چھ لوگ ایک کمرے میں بیٹھ کر ایک فہرست بنا لیتے ہیں کہ کیا الزامات لگانے ہیں اور بس اللہ اللہ خیر صلا۔یہ سب باتیں اس وقت ہورہی ہیں جب الیکشن قریب ہیں گو کہ  اس پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ انتخابات اگست میں ہوں گے کہ کچھ اور وقت لگ جائے گا۔چیف جسٹس تک نے اس پر روشنی ڈالی کہ چونکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیاں متنازعہ بن چکی ہیں اور بیشتر پارٹیوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تو ایک نئی ایکسر سائز کرنی پڑے گی، جو کہ آسان نہیں ہوگا۔اعتراضات بہت زیادہ ہیں اور آئین اور قانون کے تحت  الیکشن کمیشن کو ان کا جواب دینا پڑے گا۔ اس میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے، سندھ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے بھی شکوہ کیا کہ شکار پور جو کہ ان کا آبائی شہر ہے انتخابی حلقہ ہے، اس میں ردو بدل کر دیاگیا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں ایم کیو ایم ، (ق)  لیگ اور دوسری جماعتوں نے اعتراضات کی بھرمار کر دی ہے۔ اس پس منظر میں انتخابات اگست سے کافی آگے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
 

شیئر: