زندگی میں اونچ نیچ قانون فطرت ہے ،غزالہ راجہ
تسنیم امجد ۔ریا ض
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین پیکر بنا کر دنیا میں بھیجا۔ اس کی فطرت میں ایک دوسرے سے محبت و ا خلاق سے پیش آ نے کی تمیز رکھ دی ہے ۔اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے مقصد تخلیق کو ا حسن طور پر پو را کرے۔یہ کا ئنات انسان کے گرد گھومتی ہے۔انسان ہی اس کے جمال کا با عث ہے۔تر قی و کا میابی کے پس پردہ اخلاق و کردار کا اہم حصہ ہے ۔انسان ایک سماجی و عقلی حیوان ہے جو تمام مخلوقات سے ا فضل ہے ۔ہمیں بطور انسان ، اشرف ا لمخلو قات ہونے کے اعزاز کا بھرم رکھنا چا ہئے اوران اخلاقی ضا بطو ں کے مطا بق زندگی گزارنی چا ہئے جو انسان اور انسانیت کے شا یا نِ شان ہیں ۔اسی طرح خویش پر وری ،اختیارات کے نا جائز استعمال اور خو ر د برد کا را ستہ روکاجاسکتا ہے ۔
دیس اور پردیس ،واقعی اپنے ناموں کی طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ذرا غور کیجئے دیس اور پردیس جیسے اپنا اور پرایا، جیسے وجود اور سایا،جیسے حکمراں اور رعایا، جیسے سیرابی اور پیاس، جیسے عطا اور آس،جیسے ماں اور ساس۔جس طرح کسی دلہن کی شادی کو 50سال ہی کیوں نہ گزرجا ئیں ، وہ شوہر کے گھر کو سسرال ہی کہتی ہے اسی طرح کوئی بھی شخص بیرون ملک ساری زندگی کیوں نہ گزار دے، اسے قدم قدم پر یہ احساس دلایاجا تا ہے کہ یہ پردیس ہے اور تم پردیسی ۔دیس خواہ کیسا بھی ہو، اس میں ممتا کی خوشبو پائی جاتی ہے کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جو اپنے نافرمان بیٹے کو بھی گھر سے نہیں نکالتی بلکہ اس کی اصلاح کی کوشش کرتی رہتی ہے خواہ ساری عمر ہی بیت جائے جبکہ پردیس وہ سرزمین ہوتی ہے جو کسی نافرمان کو برداشت نہیں کرتی اور اسے ملک بدر کرکے ہی دم لیتی ہے۔
وطن کسی بھی ہستی کے لئے لڑکی کے میکے جیساہوتا ہے جو ماں کی طرح نہ صرف اسے ناز و نعم سے پالتا ہے بلکہ اس کے نخرے بھی اٹھاتا ہے اور اپنی ذمہ داری سمجھ کرساری زندگی رابطہ استوار رکھتا ہے جبکہ پردیس لڑکی کے سسرال جیسا ہوتا ہے جو ساس کی طرح نہ صرف ہر ہر حرکت پر نظر رکھتا ہے بلکہ اسے گاہے بگاہے باور کراتا رہتا ہے کہ یہ پردیس ہے، دیس نہیں جہاںاپنی مرضی چلا سکو۔اردو نیوزاپنے سلسلے ”ہوا کے دوش پر“ ایسی ہی ہستیوں کے حال ، چال اور احوال قارئین کی نذر کرتا ہے ۔ پردیسی وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ وہ ملک سے با ہر بھی ملک کا نام رو شن کرتے ہیں۔انہیں احساس ہو تا ہے کہ یہ ماں نہیں جو ہماری اٹکھیلیاں ہنسی خو شی بر دا شت کر لے گی بلکہ ہمیں پردیس کی شرا ئط کے مطابق ہی رہنا ہے ۔ وہ ان شرائط کو ہی اطوارِ حیات میں شامل کر لیتے ہیں یوںانہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ گھڑی کی ٹک ٹک ہی وہ صدا ہے جو انہیں باور کراتی ہے کہ زندگی اپنے انجام کی جانب گامزن ہے ورنہ مصرو فیت تو کچھ سو چنے ہی نہیں دیتی۔
ہوا کے دوش پر ہوائی ملاقات قربتوں کی نئی نئی راہوں سے آشنا کرتی ہے۔ اکثر فون بھی موصول ہوتے ہیں کہ فلاں مہمان سے ملے عرصہ گزر گیا تھا، اس انٹرویو نے ملا دیا ، ”شکریہ اردو نیوز کا۔“
عالمگیر سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ بھی ہے کہ زندگی کے ہر روپ میں عورت لائق احترام ہے ،وہ اہم کردار ادا کرتی ہے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :،
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُ رِ مکنوں
اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی تکمیل ہی اس کی منزل ہے جس کے لئے وہ اپنی تمام تر توا نا ئیا ں صرف کر دیتی ہے ۔”ہوا کے دوش پر“ آج ہم ایسی ہی ہمہ صفت و ہمہ جہت خاتون سے آپ کی ملا قات کرا رہے ہیں جن کے لئے یہ کہنا منا سب ہو گاکہ:
مکالما تِ فلا طوںنہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹو ٹا شرارِ افلا طوں
محترمہ غزالہ راجہ سے گفتگو نہا یت دلچسپ رہی ۔وہ دھیمے مزاج کی خو ش گفتار خاتون ہیں ۔انہو ں نے ” اردو نیوز “کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مہمان نوازی پر میں مشکور ہو ں ۔دیارِ غیر میں اس نے یقینا ایک اہم فریضہ سنبھال رکھا ہے ۔اس نے تارکین کے ا حساس کو زباں بخشی ہے۔پر دیسیت کے ا حساس کولوری دے کر سلا دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں یہ جا نتی ہو ں کہ زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر گزار نا چا ہئے۔پردیس نے ہمیں خو بصورت لمحات حیات سے نوا زا ہے۔ یہا ں کی صبحیں اور شا میں بھی پرکیف ہیں لیکن وطن سے ناتہ غیر ا ختیاری ہے چنا نچہ حبِ وطن بھی غیر ا ختیاری ہو تی ہے ۔وطن تو ہمارے سا ئے سے زیا دہ قریب اور وفا شعار ہے جو ہر حال میںانسان کے وجود کا حصہ رہتا ہے ۔
محترمہ غزالہ نے کہا کہ میرابچپن گو کہ بہت ہی خو بصورت مقامات پر گزرا ۔اس دور کی یا دیں میں کبھی بھلا نہیں سکتی۔ہمارا گا ﺅ ں ”ٹھو ٹھا رائے بہادر “جو گجرات اورکھاریا ں کے وسط میں ہے ،راجپو توں کا خو بصورت گا ﺅں ہے ۔میرے والد راجہ عبد ا لقادر کا ایک نام تھا۔ وہ وہاں کی مشہور اور پسندیدہ شخصیت تھے ۔میری والدہ رضیہ سلطانہ بھی خواتین کے حلقو ں کی جان تھیں۔انہیں سب آ پا جی کہہ کر پکارتے تھے ۔دو نو ں سماجی بہبود کے کا مو ں میں آ گے آ گے رہتے تھے ۔ضرورت مندو ں کی مدد ان کے لئے اولین حیثیت کی حامل تھی۔وہ کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لو ٹاتے تھے۔
ہماری حویلی بھی بہت بڑی تھی جہا ں ہر وقت لنگر کھلا رہتا تھا۔ہم دادا کی اس حویلی میں جا نے کے لئے بیقرار رہتے تھے ۔والد صاحب کی تقرری ”منگلا بند“کی تعمیر کے دوران وہیں ہو گئی ۔یہ بند در یا ئے جہلم پر بنایا گیا تھا جو آج بھی دنیا کا سا توا ں بڑا بند ہے ۔اسے اس کا نام منگلا گا ﺅ ں کی وجہ سے دیا گیا ۔
ہم 3 بہنیں اور ایک بھائی ،والدین کی مصرو فیات کے باوجود ان کی توجہ کا محور تھے ۔سب سے بڑی بہن ثریا دوسرے نمبر پر ریحانہ نگہت اورپھر میں۔بھائی ،سہیل نویدسب سے چھو ٹا تھا ۔ہماری اسکو لنگ وہیں ہو ئی۔
بہت خو بصورت مقام تھا ۔والد صا حب بھی اعلیٰ عہدے پر فا ئز تھے ۔اس لئے ہمارے بھی ٹھا ٹ تھے لیکن چھٹیو ں میں ہماری دوڑ حویلی کی طرف ہی ہو تی تھی ۔نو کر چا کر اور خد متیں بہت یاد آ تی ہیں ۔بقول شاعر:
چلو پھر ڈھو نڈ لیتے ہیں اسی نا دان بچپن کو
انہی معصوم خو شیو ں کو ،انہی رنگین لمحو ں کو
جہا ں بس مسکرا ہٹ تھی،بہا ریں ہی بہا ریں تھیں
اور اس دنیا کا چہرہ بھی ، بہت سچا سا لگتا تھا
جہا ں غم کا پتہ نہ تھا ،جہا ں دکھ کی سمجھ نہ تھی
منگلا بند کی تکمیل پر والد صا حب گجرات چلے آ ئے ۔ میری کالج کی زندگی وہیں شروع ہو ئی ۔ایک بار پھر ہماری دوڑ حویلی کی جانب لگ گئی۔وطن میں دیہی زندگی آ ئیڈیل ہے۔ہر شے کی ترو تا زگی لا جواب ہے۔ہم صبح صبح اٹھ کر کھیتوں کا لمبا چکر لگاتے۔تا زہ ہوا کا لطف تو لا جواب ہے ۔وا لدین میں والد صاحب کا رعب بہت تھا ۔وہ با اصول تھے۔ان کے نا فذ کردہ اصولوں پر نہ چلنے کی سخت سزا ہوتی تھی مگر ویسے وہ ہم بچوں سے بہت دوستانہ رویہ رکھتے تھے ۔والدہ کا رعب ہر وقت رہتا تھا۔ان کی پا بندیوں پر ہم بہت کڑ ھتے تھے ۔یہا ں جانا ہے، وہا ں نہیں جانا، یہ کرنا ہے اور وہ نہیں کرنا و غیرہ وغیرہ۔اس طرح ہماری تر بیت کورشتہ دار اکثر سرا ہتے تھے۔آج ہم بہنیں سو چتی ہیں کہ اماں کی سختیاں صحیح تھیںکیونکہ یہ اولاد کے لئے ضروری ہو تی ہیں ۔
میری گریجویشن کیا مکمل ہو ئی ، والدین کو رخصتی کی فکر لا حق ہو گئی ۔چچا راجا عبدا لخالق کے ہاںرشتہ تو طے تھا ہی بس انہیں رخصتی کا گرین سگنل بھی دے دیا گیا اور دو نو ں جانب تیاریاں شروع ہو گئیں۔حویلی کی وسعت اور مہمانوں کی طویل فہرست دیکھتے ہوئے انتظامات وہیں کئے گئے۔حویلی کو دلہن کی مانند سجایاگیا اور اسی دھوم دھام میں ہمیں سسرال سدھار دیاگیا ۔شو ہر خالد محمود را جہ فر سٹ کزن ہونے کے ناتے با لکل اجنبی نہیں تھے ۔سسرال بھی اپنا سا تھا۔شہر بدل گیا توکو ئٹہ پہنچے۔ وہاںبھی بھر پور استقبال ہوا ۔سسرال بھی مختصر سا ملا۔میرے شوہر کی ایک بہن اور ایک بھائی ہیں۔چچا سسر پو لیس میں ا چھے منصب پر تھے ۔محبتو ں کے چھاﺅں میں یہ ا حساس ہی نہ ہوپایا کہ ہم جہاں ہیں وہ سسرال ہے میکا نہیں۔وہاںصرف 6ماہ مقیم رہے پھر مملکت آ نا ہو گیا ۔رشتے دار تو یہا ں بھی بہت تھے لیکن پھر بھی شروع شروع میں دل نہیں لگتا تھا ۔
ہماری گفتگو کا اب نیا مو ڑآپہنچا تھا۔ خالد محمود راجہ بھی تشریف لے آ ئے تھے، وہ کہنے لگے کہ اردو نیوز کو ہمارا شکر یہ بھیج دیجئے۔بیگم کو چائے کا کپ لانے کہا اور گویا ہوئے کہ اگر چہ پردیس میں اپنے نہیں ہوتے لیکن مقصد پیشِ نظر رکھ کر یہ سوچ لیا جائے کہ زندگی نام ہی تگ و دو کا ہے،اس کے ہر رنگ کو مثبت لیا جائے تو منفی پن پھیکا پڑ جا تاہے ۔میں نے 17سال ملاز مت کی اور اپنی محنت سے وطن کا نام روشن کیا۔پھر خوب تر کی لگن نے کاروبار کی طرف لگا دیا ۔ہماری کنسٹرکشن کمپنی بھی اب خوب نام رکھتی ہے ۔میں خوش قسمت ہو ں کہ بیگم کا
تعاون قدم قدم پر رہا ۔گھر سے باہر کی دنیا میں کا میابی کا دارو مدار گھر کے سکون پر ہوتا ہے ۔الحمد للہ، ہمارے گھر کے آ نگن میں دو پھول کھلے۔بیٹی آ منہ راجہ اور بیٹا ا حمد را جہ۔دو نوں کی پرورش اور تر بیت پر ہم دو نو ں نے مل کر بھر پور تو جہ دی ۔ما شا ءاللہ، دو نوں نے لندن سے گریجویشن مکمل کر لی ہے ۔غزالہ بو لیں کہ بیٹی بھی یہا ں ایک کمپنی میں اچھی پو سٹ پر ہے جبکہ بیٹے کوخالد صا حب نے اپنے سا تھ کا رو بار میں لگا لیا ہے ۔انہوں نے پری فیبریکیشن اسٹیل فیکٹری بھی لگا لی تھی۔اسے اپنے بیٹے ا حمد کے سپرد کر دیا ہے ۔اس کی نگرانی بھی کرتے رہیں گے۔اللہ کا شکر ہے ،اس کی رحمت قدم قدم پر ساتھ رہی ۔آ جکل خالد پا کستان انو یسٹرز فورم کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریا ں نبھا رہے ہیں ۔خالد راجہ نے کہا کہ یہ تنظیم 2009ءمیں بنی تھی جس کا مقصد سر ما یہ کاری کے سلسلے میںپاک، سعودی تعلقات کا فروغ اور مملکت کے انویسٹرز کوبا ہمی ربط فراہم کرنا تھا ۔ہم سفارتخانہ پاکستان اور خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدا لعزیز آل سعود ،ولی عہد شہز ادہ محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کے تہہ دل سے مشکور ہیںکہ ان کے زیرِ سر پر ستی ہماری تنظیم کی سر گر میا ں جا ری ہیں ۔
غزا لہ راجہ نے کہا کہ انسان کی زندگی میں اونچ نیچ عام سی بات ہے ۔یہی قا نونِ فطرت ہے ۔اس سے گھبرانا نہیں چا ہئے۔ہم دونوں فلا حی کا مو ں میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔مملکت آنے کے ڈیڑھ برس بعد میرے والد صا حب انتقال کر گئے ۔پھر 14برس بعد اماں بھی
ساتھ چھوڑ گئیں ۔میکا خالی ہو گیا ۔بہنیں اپنے اپنے گھروں میں ہیں ۔غزالہ راجہ اداس ہوکربو لیں کہ لوگ کہتے ہیں کسی کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جا تی لیکن یہ کو ئی نہیں جا نتا کہ لا کھو ں کے مل جانے سے بھی ایک ما ں کی کمی پو ری نہیں ہو سکتی:
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعدیہ معلوم
کہ تو نہیں تھی ، ترے ساتھ اِک دنیا تھی
جدائی کے صدمے ابھی ختم نہیں ہو ئے تھے کہ ہمارا اکلوتا بھائی، خاندان کی نشانی سہیل نوید بھی 7 برس قبل ہمیں چھو ڑ گیا ۔وہ لندن میں تھا۔اب اس کا ایک بیٹا ،تو حید را جہ ،ہماری محبتو ں کا محور ہے ۔میں اکثرسو چتی ہو ں:
اداسی ،شام ،تنہا ئی،کسک یادوں کی بے چینی
مجھے سب سو نپ کر سورج اتر جاتا ہے پا نی میں
ادھر چچا سسر اور چچی ساس بھی جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔گویا بزرگوں کا سایہ اٹھتا چلا گیا ۔ہمارا بچپن مشترکہ ہی گزرا۔ بزرگ ہستیاںسنگ سنگ رہیں۔محبتیں بھی بے پناہ تھیں،اس لئے جدائیا ں بہت محسوس ہو ئیں ۔میں یہاں ایک پیغام دینا چا ہوں گی کہ:
رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ان کی جس قدر ممکن ہو قدر کیجئے۔مل جل کر ،در گزر سے کام لے کر ،انہیں نبھا ئیے۔ان کے نہ ہو نے سے شعور و لا شعور میں ان سے لا پروائی ایک نا سور کی طرح،اندر ہی اندر کھو کھلا کرتی رہتی ہے ۔لوگوں کو یہ بات پلے با ندھ لینی چا ہئے کہ رشتے بنانا ا صل بات نہیںبلکہ اصل بات ان رشتوں کو نبھا نا ہے ۔وقت ،دولت اور رشتے ،وہ چیزیں ہیں جو ہمیں مفت میں ملتی ہیں مگر ان کی قیمت کا تب پتہ چلتا ہے جب یہ کہیں کھو جا تی ہیں ۔ہماری غفلت سے ہی ان میں دراڑیںپڑ تی ہیں ۔
ہمارے سوال پرغزالہ راجہ بو لیں کہ ہم دو نوں کو سو شل ایکٹیوٹیز کا شوق ہے ۔شوہر بھی مختلف تنظیموں کے فعال رکن ہیںاور میں بھی۔میں یہاں خواتین کے نہایت فعال گروپ کی ایگز یکٹیوٹیم میں ہوں ۔ہمیشہ اس کے لئے چیر ٹی کے کام کئے ۔ جب بچوں کی ذمہ داریاںتھیں یعنی وہ چھو ٹے تھے تو ان سر گر میوں سے کٹی رہی لیکن اب پھر شامل ہو کر اپنے شوق کی تکمیل چاہتی ہو ں ۔ ہمیشہ مجھے ٹریژر ی یعنی خزا نے کی ذمہ داری سو نپی گئی ۔مجھے فخر ہے کہ یہا ں مجھے سہیلیاں بھی بہت ہی مخلص ملیں ۔شمائیلہ شہباز تو سہیلی سے زیادہ بہن ہے ۔ہم اتفاقاً ایک ہی کمپاﺅ نڈ میں ہمسائے بھی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو خوش رکھے اور ہماری محبتیں قائم رکھے ،آ مین۔
غزالہ راجہ کے شو ہرنے کہا کہ میں ” گولف“ کا شوقین ہو ں ۔اس کلب کا ممبر بھی ہوں ۔اس طرح شہرِ ریاض کے سبھی دوست مل کر اس کلب میںجاتے ہیں۔اگر چہ یہ انفرادی کھیل ہے لیکن ٹیم بن کر کھیلنے میں زیادہ لطف آ تا ہے ۔اگر ہم ”این سی اے اے “چیمپیئن شپ کو جیتنے کے خوا ہا ں ہوںتو لگن اور بھی بڑھ جا تی ہے ۔اب تو ہمارا بیٹا احمد را جہ بھی ٹیم میں شامل ہو گیا ہے ۔
محترمہ غزالہ نے کہا کہ اللہ کریم کا شکر ہے، ہم والدین اور بز ر گو ں کے نقشِ قدم پر چلنے کے قا بل ہوئے ۔بچو ں کی تر بیت میں بھی ہم نے انہیں کا ساانداز اپنایا ۔شوہر کا بھر پور تعاون رہا اس پر میں ان کی مشکور ہوں ۔ آ خر میں دونوں نے اپنی پسند کی شاعری پیش کی ۔کچھ آپ کی نذر ہے:
٭٭غزالہ:
چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے
سچ تو یہ ہے کہ وہی لمحے مرے کام کے تھے
میری آ نکھو ں سے ہیں وابستہ مناظر ایسے
جو کسی صبح کے تھے اور نہ کسی شام کے تھے
٭٭خالد را جہ :
حسیں احساس ہے ہر ایک آ دمی کے سنگ
و جود زن سے ہے تصویرِ کا ئنات میں رنگ