Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پھر میری سہیلی ہمیشہ کیلئے آف لائن ہوگئی‘‘

اس نے مجھے سینے سے لگا کر گرمیٔ محبت سے آشنا کرایا، خون سے سینچ کر محبت کا یقین دلایا- - - - - - -

 

شہزاد اعظم ۔ جدہ

میں نے دنیا میں آنکھ کھولی تو فخر، انبساط، مسرت اور طمانیت سے معمور دومسکراتی آنکھوں نے میرا استقبال کیا۔ مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر، سینے سے لگا کر گرمیٔ محبت سے آشنا کرایا، مجھے اپنے خون سے سینچ کر محبت کا یقین دلایا،اپنی ہستی کو میری خواہشوں کے تابع کر کے ایسی اپنائیت اور چاہت دی کہ جس کے آگے ’’غلامی‘‘ بھی ہیچ محسوس ہو۔وہ اس روئے زمین پر میری زندگی میں قدم رکھنے والی پہلی سہیلی تھی ۔ جب انہوں نے مجھے نطق سکھایا تو میں نے ان سے سب سے پہلا سوال یہی کیا کہ ’’اے میری پیاری سہیلی!آپ کون ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دینے سے پہلے میرے چہرے کو اپنے نازک ہاتھوں کے حصار میں لے کرمیرے گالوں پر پیار کیا اور کہا ’’میری جان! میں آپ کی امی ہوں۔ میرے یہ تمام احساسات، جذبات اور محسوسات دراصل مامتاہیں اور یہ صرف اور صرف تمہارے لئے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ وقت گزرتا رہا، اپنی سہیلی کے ساتھ میری محبت کے تانے بانے بنے جاتے رہے، رابطے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ پہلے تو وہ ہی میرے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں، اب تو میں بھی اپنی سہیلی کی محبت کا اس حد تک اسیر ہوگیاتھا کہ اُن کا چہرہ دیکھ کر ہی میری صبح ہوتی اور اُن کے پیار کی آغوش سے ہی میں نیند کی وادیوں میں داخل ہوتا۔وہ ہر طرح میرا خیال رکھتیں اور میرا دل چاہتا کہ میں کسی طرح جلدی سے بڑا ہوجاؤںاور کسی قابل ہوجاؤں تاکہ میں اپنی سہیلی کے احسانات کا جواب دے سکوں۔ کچھ مزید وقت گزرا تو میں ملازم ہوگیا۔

تنخواہ زیادہ نہیں تھی۔ میں اپنی سہیلی کی جس انداز میں خدمت کرناچاہتا تھا، اس کے لئے میرے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔ وہ مجھے دعائیں دیتیں کہ اللہ کریم تمہاری ساری خواہشات پوری فرما دے۔پھر ایسا ہوا کہ مجھے پردیس میں ملازمت کا موقع مل گیا۔ میں اپنی سہیلی کو وطن میں چھوڑ کر پردیس چلا آیا۔ اُس وقت رابطے کا اہم ذریعہ خطوط اور ٹیلی فون ہی تھے۔فون بہت مہنگا تھا اور خط بہت تاخیر سے پہنچتا تھا۔ ہفتے میں دو مرتبہ فون پرایک ایک منٹ کے لئے امی سے بات کرتا اور ایک خط لکھتا۔ میری امی مجھے پیار بھرے جوابات تحریر کرتیں۔ فون پر میری آواز سن کر رو دیتیں۔ پھر یوں ہوا کہ موبائل فون عام ہوگئے ۔ اب میں روزانہ امی سے موبائل فون پر بات کرتا۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا بیٹا بہت پیار سے بات کرتا ہے۔ مجھے اس کی آواز سن کر نئی زندگی مل جاتی ہے۔ جس دن فون کرنے میں تاخیر ہوجاتی، میری سہیلی کا فون آجاتا کہ کیا ہوا، خیریت ہے، فون کیوں نہیں کیا ، میںپریشان ہو گئی تھی۔موبائل فون نے بہت آسانی پیدا کر دی تھی۔ کوئی بھی مشکل ہوتی، امی سے دعا کروا لیتا۔ بیمار ہوتا تو ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی بجائے امی کو بتاتا اور ان سے دعا کرواتا، انجام یہ ہوتا کہ ڈاکٹر کے ہاں جانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی تھی۔میں اپنی سہیلی کو پیسے بھیجتا اور وہ مجھے وہاں سے دعاؤں کے خزینے روانہ کرتیں۔ پھر یوں ہوا کہ ا نٹر نیٹ گھر گھر پہنچ گیا۔ میں نے امی کو آن لائن آئی ڈی بنا کر دی، ’’پیاری سہیلی‘‘۔ پھر کیا تھا، میں جیسے ہی سو کر اٹھتا، امی کال کرتیں، کیمرہ کھول دیاجاتا اور میں اپنی سہیلی سے روزانہ’’ وڈیو چاٹنگ‘‘ کرتا۔ گھر سے باہر نکلتا تو موبائل فون پر رابطہ رہتا۔یوں ممتاسے دوری کا احساس کچھ کم ہوجاتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ 4سال قبل 18اپریل کو میں نے ’’پیاری سہیلی‘‘سے آن لائن رابطہ کرنا چاہا تو ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ وہ آف لائن تھیں۔ میں نے موبائل پر رابطہ کیا مگر اس پر بھی مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ میں پریشان ہو گیا۔ اب دوسرے بھائی کے فون پربات کی تو سلام سے پہلے رونے کی آواز آئی اور پھر کہا گیا کہ بھائی جان، امی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ گزشتہ دنوں میری طبیعت ناساز ہوئی۔ خیال آیا کہ امی نہیں تو امی کی بیٹی سے ہی دعا کروا لوں، اُس میں بھی تو میری امی کی چھب ہے، انہی جیسی پھبن ہے، وہی آواز ہے، وہی انداز ہے ۔ یہ سوچ کر’’سائن اِن‘‘ ہوا کہ شاید وہ خیریت دریافت کرنے آجائے۔

رات کے 11بجے سے انتظار کرتے کرتے فجر ہونے والی ہوگئی۔کوئی آن لائن نہیں آیا۔میںکسی اپنے کے سائن ان ہونے کا انتظار کر رہاتھا کہ ایک ہستی آن لائن آئی مگر وہ میری امی کی بیٹی نہیں بلکہ میری بھابی تھیںمگر وہ میری خیریت دریافت کرنے نہیں بلکہ دوسرے شہر میں بغرضِ تعلیم مقیم اپنے بیٹے سے گفتگو کرنے کے لئے آن لائن ہوئی تھیں۔یہ دیکھ کر میرے جذبوں نے آنسو بہائے ، دل نے مجھے سمجھایا کہ یہ تو تمہارے بھتیجے کی’’ سہیلی‘‘ ہے۔ تمہاری پیاری سہیلی تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ’’آف لائن‘‘ ہوچکی۔ اب اُن کا انتظار بے کار ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سائن اِن ہونا ہی چھوڑ دو۔

شیئر: