Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان انٹرنیشنل اسکول ناصریہ میں یوم اقبال پر تقریب

 
اقبال نوجوانوں میں شاہین جیسی صفات اور مرد مومن جیسی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے،نو جوانوں کو ان توقعات پر پورا اترنا چا ہئیے
 
جاوید اقبال ۔ ریاض
 
پاکستان انٹرنیشنل اسکول ناصریہ ریاض میں یو م اقبال پر تقریب کا انعقاد سینیئر بوائز ونگ میں کیا گیا۔ صدارت وائس پرنسپل گوہر رفیق نے کی۔ نظامت کے فرائض انوار الحق نے انجام دیئے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال نہ صرف ہمارے قومی شاعر ہیں بلکہ وہ امت مسلمہ کے بھی شاعر ہیں کیونکہ انہوں نے جو پیغام دیا ہے وہ محدود نہیں بلکہ ساری امت کیلئے ہے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز کلام پاک کی تلاوت سے ہوا ۔طالب علم محمد اسامہ نے سعادت حاصل کی۔ مزمل افضل نے کلام اقبال پیش کیا ۔ جماعت نہم اے کے طالب علم احمد باجوہ نے بزبان انگریزی ڈاکٹر اقبال کی سیاسی او رملی خدمات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے انہیں امت مسلمہ کا عظیم رہنما ، درد دل رکھنے والا مسیحا اور مسلمانان ہند کوخواب غفلت سے بیدار کرنے والا شاعر قرار دیا اور کہا کہ اقبال کے کلام اور فلسفہ کو سمجھیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ملک و قوم کو ترقی و کامیابی و کامرانی کی راہوں پر گامزن کرنا چاہئے۔
جماعت نہم کے طالب علم بلال عابد نے اقبال کے حالات زندگی، تعلیم و تربیت، سفر یورپ کے علاوہ اقبال کی سیاسی اور ادبی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ اقبال مسلمانوں کے حقیقی خیر خواہ، محسن قوم و ملت اور حقیقی رہنما تھے۔ اقبال کا پیغام عالمگیر ہے۔ انکا پیغام ذوق طلب ہے۔ بلند پرواز ہے، خودی اور خودداری ہے اور منزل مقصودکا حصول ہے۔
طالب علم سید فہیم علی نے اقبال کا پیغام نوجوانوں کے نام کے موضوع پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کو امت مسلمہ کی ترقی، نوجوان نسل کی صلاحیتوں، عزم و حوصلہ اور جواں ہمتی میں نظر آتی تھی۔اقبال نوجوانوں میں شاہین جیسی صفات اور مرد مومن جیسی خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نوجوانوں میں عزم و ہمت ، بلند پروازی، غیرت مندی ، شجاعت و بہادری ، حرکت عمل اور خود داری جیسی صفات سے متعف دیکھنے کے متمنی تھے کیونکہ ایسی ہی اعلی صفات سے مسلمانوں کو پھر سے وہی مقام مرتبہ نصیب ہوسکتا ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
صدر تقریب وائس پرنسپل پاکستان انٹرنیشنل اسکول ریاض گوہر رفیق نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال کی نوجوانوں اور طلبہ سے بہت زیادہ تواقعات وابستہ تھیں چنانچہ نوجوانوں کو ان توقعات پر پورا اترنا چاہئے۔ انہیں اقبال کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے۔ اقبال کو پڑھنا، سننا، سمجھنا اور انکے تصورات ، خیالات اور نظریات پر عمل کرنا ہم پر قرض ہے اور ہمیں یہ قرض ادا کرنا ہے۔ اقبال کے مقروض ہیں جب تک یہ قرض ادا نہیں کرتے کامیاب وکامرانی و ترقی و عروج سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ آخر میں قومی ترانہ پڑھا گیا ۔
******

شیئر: