سیرت نبوی ﷺ کا تجارتی پہلو
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے،ان میں حضور بھی اپنا سامانِ تجارت لے جایا کرتےتھے۔
* * * محمد حذیفہ ہردے پوری۔مظفر نگر،ہند* * *
جزیرۂ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ اُس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے اس لئے ان کیلئے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا۔ ویسے بھی جزیرۂ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام ِاتصال تھا اس لئے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرۂ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انہی کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گزر بسر کرتا، اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا، قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔
یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے۔ان میں سے قبیلۂ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا بلکہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے: لا یلٰف قریش، الٰفہم رحلۃ الشتاء والصیف’’قریش کے مانوس کرنے کیلئے،(یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کیلئے(اس کے شکریہ میں)۔‘‘ (قریش2,1) ۔
ماضیٔ قریب کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’رسولِ اکرم کی سیاسی زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’چین و عرب کی تجارت عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی۔ قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور ’’رحلۃَ الشتائِ والصیف‘‘ کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں‘‘۔
حضرت محمد نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے؟ آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپکی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا ۔اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے۔
آپ کا پہلا تجارتی سفر:
نبی کریم کی عمر مبارک 12سال2ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلۂ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا۔ مصائبِ سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہمراہ لے جانے کا نہ تھا۔ عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے اس لئے آپکو اپنے ہمراہ لے لیا اور روانہ ہوئے۔ جب شہر بُصریٰ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا۔ بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے حضور پر نور اور چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر عظیم الشان بنے گا لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے چنانچہ ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔
کاروباری مشاغل:
جیسا کہ اوپر گزرا کہ حضور اقدس کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابوطالب کیساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا اسلئے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے اسلئے آپ نے تجار ت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعۂ معاش کیلئے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کیساتھ آپنے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کیلئے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے اِن اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا۔ آپ کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں۔ آپ کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے بلکہ انھوں نے ہی آپ کو’’ تاجرِ امین‘‘ کے لقب سے نوازا۔
آپ کے کاروبار کا طریقۂ کار:
آپ ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم سے ایک معاملہ کیا ۔میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں ۔اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا۔3 روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا۔یاد آتے ہی فورا ًآپ کے مکان پر پہنچا معلوم ہوا کہ2 روز گزرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے۔ گھر والے خود پریشان ہیں۔ میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ کو تلاش کیا، کہیں نہیں ملے تو احتیاطاً وعدہ گاہ پر پہنچا تو میر ی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل 3 دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ صل نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی، صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ’’یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَیَّ انَا ہٰہُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ اَنْتَظِرُکَ‘‘(سنن ابی دائود)کہ ارے بھائی! تُونے مجھے زحمت دی، میں 3 دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں(ماخوذ از سیرۃ المصطفیٰ و سیرۃ النبی )۔
تجارت کے کاروبار میں آپ اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔سیدنا عبد اللہ بن سائبؓ فرماتے ہیں کہ میں زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ کا شریکِ تجارت تھا۔ جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں!آپتو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک۔ نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے (سیرۃ المصطفیٰ)۔
سیدنا ؒؒقیس بن سائب مخزومیؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں رسول اللہ میرے شریک تجارت تھے۔آپ بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے (سیرۃ المصطفیٰ)۔
آپ کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابو بکر تھا۔وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے۔ وہ کبھی کبھی سفر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے(سیرۃ النبی)۔
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے،ان میں حضور بھی اپنا سامانِ تجارت لے جایا کرتے۔آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔ ایک بارایک میلے میں آپ20 اونٹ لائے مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے۔ کام سے فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے۔ غلام سے دریافت کیاتو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپنے خریداروں کاپَتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا۔ فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دئیے۔ ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں۔ وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کیلئے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اسکے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا۔ہم وہاں3 دن تک محمد() کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر 3 دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا'آپ نے فرمایا :بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سوادا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انہیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا مگر آپ نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا ًپہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپنے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے ۔
ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔
الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپکے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف 12,10سال کے عرصے میں آپکی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے۔ یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں، افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی رؤسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی،دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کو ’’الصادق الامین‘‘ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے۔یہ 2لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انھوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی۔
آپ کا شام کا دوسرا سفروسیدہ خدیجہؓ سے نکاح:
اُن دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ تھیں، جو2بار بیوہ ہوچکی تھیں۔انھوں نے باپ سے کثیر جائداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی او راپنی تجارت کو باقی رکھنے کیلئے انھیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آں حضرت کی عمر اگرچہ تقریبا23سال تھی مگر آپکے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے۔کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپکو تجربہ ہوچکاتھا تو سیدہ خدیجہؓ نے خواہش ظاہر کی کہ حضور ان کا سامانِ تجارت سرزمینِ شام کی طرف لیجائیں او رمعاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت 2گنا منافع دیں گی۔ آپنے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی او ر23یا 24برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فوراً نکاس ہوجائے۔آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا۔ بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے اور مقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں او رحضورکے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضورنے مال کا نفع حضرت خدیجہؓ کے سپرد کیا اور غلام میسرہ نے نہ صرف امانت داری بلکہ آپکے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ سیدہ خدیجہؓ جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامانِ محمد میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگاچنانچہ سفرِ شام سے واپسی کے 2 ماہ 25 روز بعد حضرت خدیجہؓ نے آپ کو نکاح کا پیام دیا۔ آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا اور25برس کی عمر میں اپنے سے 15برس بڑی اور2 بار بیوہ ہوچکی خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔
نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا مال حضور کے قدموں پر نچھاور کردیا مگر آپنے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کردیا او راپنی معاش تجارت کو باقی رکھا۔ اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے رہے۔تجارت کی خاطر آپ نے بصری اور مدینہ کی جانب کئی تجارتی سفر کیے او رانہی سفروں کے درمیان آپ قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیچ و خم سے آگاہ ہوگئے، خصوصاً مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔
چند ارشادات نبویؐ او رنقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو نیز تجارت میں امت کے لئے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:
رسول اللہ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا او رہر حلال وجائز خرید وفروخت(السنن الکبری للبیہقی )۔
تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت ودیانت او رراست بازی کی آپ ہردم تاکید ی نصیحت فرماتے رہے، فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے بجز اُس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خداترس رہا ہو، لوگوں سے حسنِ سلوک کیا ہو اور ہرمعاملے میں سچائی کا دامن تھامے رکھاہو (ترمذی )۔اسی طرح فرمایا: امانت دار اور راست باز تاجر قیامت کے دن صدیقوں او رشہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا (ترمذی)۔آپنے بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا : بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتوکیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے مگر برکت جاتی رہتی ہے (مسلم )۔
آخری بات یہ ہے کہ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپ نے ’’تاجر‘‘ نام رکھا۔ پہلے انھیں ’’سماسِر‘‘ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو تمام لوگوں نے بہت پسند کیا۔