Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جشن میلاد النبیﷺ ، محبت کا اظہار ہے؟

کیا محبت کے قرینہ سے صحابہؓ و صحابیاتؓ واقف نہ تھے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ میلاد النبی کے جشن اُن کے دور میں نظر نہیں آتے

 

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔ شارجہ

انسان اپنے سارے حواس سے کام لے کر بھی اْس علم کو نہیں پہنچ سکتا جو اس کی روح کو شاد کام اور مطمئن کر سکے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کو وحی اور نبوت و رسالت اور علم کے خاص وصف سے آراستہ کیا اور انسانوں کی ہدایت کیلئے یہ سلسلہ قائم رکھا۔ یہاں تک کہ انسانیت کے ارتقائی مدارجِ علم کے اس دور میں داخل ہو گئے جو انسانیت اور دنیا کا آخری دور کہلاتا ہے۔ اور یہ دور خاتم النبیین محمد رسول اللہ کا دور ہے،اور علم وحی کا دور ہے۔انسان کی طلب و جستجو، علم کی پیاس، تکمیل انسانیت کے سارے راز خاتم النبییّن کی زندگی میں سمیٹ دیے گئے۔ تکمیل تعلیم و دین کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت بھی تشکیل دی گئی جس نے ’’علم کے سیکھنے اور سکھانے‘‘ کا حق ادا کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل و اطاعت کے ایسے ایسے نادر نمونے ظہور پذیر ہوئے کہ چشمِ فلک نے ایسا کبھی نہ دیکھا۔ یہ روشن ستارے رہتی دنیا تک جگمگاتے رہیں گے۔ یہ سچے اور کھرے لوگ، جنھوں نے حق بات کو اتنا ہی حق جانا اور مانا جس قدر کہ وہ تھی، نہ دین میں غلو کا شکار ہوئے اور نہ ہی احترام و عقیدت کے نام پر شریعت کی قائم کردہ حدود پار کیں۔خاتم النبییّنکی حیاتِ مبارکہ اور دیدارِ نبی کی سعادت کو پانے والے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی سعادت مند نہیں ہو سکتا۔ حضور اکرم کی شخصیت بحیثیت ایک انسان کے، بحیثیت نبی و رسول، بحیثیت منتظم اعلیٰ، صاحب اقتدار اور سپہ سالار، کتنی جہتیں تھیں جن کو سامنے رکھ کر صحابہ کرام نے خاتم النبیین کے مقام و مرتبہ کو نہ کچھ کم کرنا تھا نہ زیادہ، اور وہ اس امتحان میں پورے اترے۔ اس حکم ربی کا احساس :اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو(الحُجُرات1) ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھا۔ ذرا سوچیئے! کیا دنیا میں کسی کیلئے کبھی اتنا مشکل مرحلہ آیا ہی؟ ہم نے تو خاتم النبیین کی شخصیتِ عظمیٰ کو بحیثیت رسولؐ و نبیؐ کے تسلیم، اسوہ ٔ کامل کے طور پر کتابوں میں پڑھا اور حضور اکرم کو چلتا پھرتا قرآن جانا اور بس۔ اور آپ سے محبت و عقیدت کے پیمانے ہم نے اپنے گھڑ لئے جس کے نتیجے میں میلاد کی محفلیں اور تقاریب منعقد کیں، نعتیہ مشاعرے اور مقابلے کرائے، ایوارڈ دئیے اور وصول کیے، اور اسی کو کُل دین سمجھ لیا۔ گویا کہ نبی سے عقیدت و محبت کے سارے رشتے نبھا دئیے۔

آئیے! مل کر سوچیں کہ جو عقیدت و محبت ہمارے دلوں میں حضور اکرم کیلئے ہے وہ جائز اور قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟ کیا صحابہؓ و صحابیاتؓ جیسی محبت ہم کر رہے ہیں؟ کیا محبت کے قرینہ سے صحابہؓ و صحابیاتؓ واقف نہ تھے؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں میلاد النبی کے جشن اُن کے دور میں کہیں نظر نہیں آتے۔ تاریخ اسلام کے دورِ اوّل کو دیکھیں، کہیں کسی مقام پر حضور کے یومِ پیدائش پہ کسی قسم کا کوئی رواج یا رجحان نہیں پایا جاتا۔ تابعین بلکہ تبع تابعین تک اس قسم کی رسومات کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تو کیا ہم اپنے اعمال پر اتنے نازاں ہیںکہ اُن خوش قسمت لوگوں سے بھی زیادہ اور نئی طرز پر محبتوں کی داغ بیل ڈال کر مطمئن اور خوش ہوتے رہیں؟ کیا جشن عید میلاد النبی ؐمنانے کے زیادہ حق دار صحابہ کرامؓ نہ تھے؟ وہ کیوں اس کار خیر سے محروم رہ گئے جبکہ ان کی خوش بختی کی گواہی خود حضور دے رہے ہیں۔ پھر ائمہ اربعہ کا دور آتا ہی۔ کسی امامِ مکرم نے 12 ربیع الاوّل کے روز جشن منانے اور سبیلیں لگانے کی تعلیم نہ دی، نہ اس دن کوئی خاص پروگرام کیا۔ 6 صدیاں گزر جاتی ہیں حضور اکرم کی ہجرت کو لیکن ربیع الاوّل کی 12تاریخ ویسے ہی گزر جاتی ہے جیسے صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور بعد کے دورِ اسلام میں گزرتی رہی تھی۔تاریخ ابن خلکان و قاموس میں درج ہے کہ 604ھ میں پہلی بار ربیع الاوّل میں عید میلاد شیخ عمر بن محمد نے شروع کی جو غیر فقیہ اور مجہول شخص تھا، اور بادشاہوں میں سرکاری طور پر اس کو رواج دینے والا ابو سعید کو کپوری بن ابو الحسن علی سبگ تگینترکمانی ہے جو ملک معظم مظفر الدین کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین نے اس کو اربل شہر پر عامل مقرر کیا ہوا تھا۔دستورِ زمانہ ہے کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں میں کچھ ایسی باتیں اور رسوم و رواج اپنی جگہ بنا لیتے ہیں جو ہوتے تو صرف مقامی یا خاندانی ہیں مگر ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ ایسے فریضے کی کمزوری اور غفلت سے وہ مذہبی احکام سے بھی زیادہ واجب التعمیل سمجھ لئے جاتے ہیں۔ اس طرح مذہبی تعلیمات پر خاندانی و مقامی رسم و رواج غلبہ پالیتے ہیں اورہر سال ان رسومات میں بدعات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اصل مذہبی فرائض نسیًامنسیًّا(بھولا ہوا)ہو جاتے ہیں۔

نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ دین کے فرائض کسی کو یاد بھی نہیں آتے لیکن ان بدعات سیّۂ کا چلن فرض عین ہو جاتا ہی۔ برصغیر میں اکثر مسلمان بادشاہ دین اسلام سے ناواقف تھے۔ ہندو عورتوں سے شادیاں کرنے کا نتیجہ اور بھی زیادہ ہولناک تھا۔ ہندوانہ رسوم و رواج کا رنگ اسلامی مزاج پر غالب آنے لگا اور مقامی، خاندانی اور ہندوانہ تہذیب کے رسوم رواج کو اسلامی رنگ دیکر مسلمانوں کو لہو و لعب اور جشن و طرب کے راستے پہ لگا دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ، وزراء اور اشرافیہ ان غیر اسلامی رسومات کو عین اسلامی سمجھ کر بڑے اہتمام اور جوش و خروش سے وقت، مال اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں جن کا اصل اسلام اور حبِ رسول سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

عید میلاد 12ربیع الاوّل کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت ملتا ہے نہ ہی صحابہ کرام و ائمہ اربعہ سے۔ یہ خالص بدعت ہی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ 12 ربیع الاول کو حضور اکرم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ کسی کے نزدیک7 ہے اور کسی کے نزدیک12 اور کسی کے خیال میں تاریخ پیدائش 9ربیع الاوّل ہے، مگر یہ اختلافِ رائے صرف تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہے ۔تاریخ وفات کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ وہ 12ربیع الاوّل ہی ہے۔ اے عاشقانِ رسول ! اے جشن منانے والو! چراغاں کرنے والو! کیوں یاد نہیں کرتے کہ اس روز مدینہ میں عاشقانِ رسول کے دلوں پہ کیا گزر رہی تھی؟ کس طرح دل پارہ پارہ ہوئے جاتے تھے؟ ذرا ٹھہرئیے! دل تھام کے تصور کیجیے! کوئی وحی کا سلسلہ ختم ہونے پہ اشک بار اور غم زدہ ہے، کوئی حضور کے دیدار سے محرومی پہ غش کھا رہا ہے، مگر پھر بھی نہ حضور کی وفات پہ کسی نے قل کیے نہ تیجا، نہ جمعراتوں کا سلسلہ، نہ چالیسواں اور نہ زردے کی دیگیں۔ عقیدت اور محبت کے لافانی جذبوں سے سر شار ہونے کے باوجود بدعات سے بچے رہے۔

(مکمل مضمون روشنی 25نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: