کراچی (صلاح الدین حیدر ) وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں یہ مطالبہ کر دیا کہ نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں بلایا جائے۔ان سے باز پرس کی جائے اور انہیں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا جائے۔ ویسے تو بالکل درست اقدام تھا لیکن اس کے پیچھے خوف کا ایک عنصر بھی نمایاں تھا، نیب کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا کہ نواز شریف نے تقریبا ً5 ارب ڈالرہندوستان میں خفیہ طریقے سے بھیجوائے اور منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے ۔ اس سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ۔ہند کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگیا۔ یہ تقریباً 2سال پہلے کی رپورٹ ہے جو بیرونِ ملک کے مائیگریشن اینڈ انکم سپورٹ پروگرام میں رپورٹ ہوئی لیکن فوراً بعد ہی اس کی تردید کردی گئی۔ پاکستان میں بھی اسٹیٹ بینک نے اس کی صحت سے صاف انکار کردیا ۔نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے پہلے ہی سے بغیر تفتیش انکوائری کا حکم کیسے جاری کردیا ۔ اس سے تو پھر ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا ۔اس موقع پر مریم نواز کیسے چپ بیٹھنے والی تھیں۔ ایک ٹوئٹ کے ذریعے اُنہوں نے طعنہ دیا کہ یہ رقم ضرور کبوتروں کے ذریعے بھیجی گئی ہوگی اور بھی سیکڑوں کبوتر سپریم کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوں گے۔ شہباز شر یف نے بھی نیب پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ عمل قرار دیا اور ےہ بھی کہہ دیا کہ اس عمل سے نیب کی شہرت کو بہت نقصان پہنچاہے۔آخر ایسی باتیں کی ہی کیوں جاتی ہیں جس پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے جج عظمت سعید نے نیب ریفرنس کی انکوائری میں ایک ماہ کی توسیع ہی نہیں کی بلکہ پراسیکیوٹر جنرل کو یہ بھی کہا کہ اگر آپ کو مزید وقت درکار ہو آپ دوبارہ درخواست کرسکتے ہیں۔دفاع کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس تمام باتوں سے ایسا تصور ابھرتاہے کہ سپریم کورٹ شاید اب نرم رویہ دکھانے لگی ہے۔ نواز شریف پر بہت سنگین الزامات ہیں۔ ان پر اس وقت 3 علیحدہ علیحدہ مقدمات قائم ہیں جس کی تفتیش تقریباًمکمل ہونے کو ہے، کچھ باتیں مزید غور طلب ہیں جس کی وجہ سے نیب کی درخواست پر وقت میں توسیع کی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس سارے مقدمات کا فیصلہ کب ہوگا؟شاہد خاقان عباسی کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیاں 31مئی کو تحلیل ہوجائیں گی ۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو امید ہے کہ نگراں وزیر اعظم کا نام کا اعلان 15 مئی تک کردیا جائے گا۔ آج الیکشن کمیشن نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ انتخابات کی تاریخ ابھی تک مقر رہی نہیں کی گئی۔ ایک اعلان کے ذریعے خود الیکشن کمیشن نے25 / 26جولائی کو ملک بھر میں انتخابات کی تاریخ دی تھی۔ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد اس کا حتمی اعلان کردیا جائے گا۔ ا لیکشن کمیشن نے اپنے پہلے اعلان کو واپس لے لیا جس سے ملک میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ کیا انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور ہر بات پر پیش گوئی کرنے والے شیخ رشید تو پہلے سے ہی مصر ہیں کہ کم ازکم 2 ماہ کی تاخیرتو ضرورہوگی۔نواز شریف اس بات کے مخالف ہیں۔ جو بات دل کو کھٹکتی ہے کہ آخر وزیر داخلہ پر ان کے اپنے ہی علاقے نارووال میں گولی کیوں چلی، پھر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے کراچی میں 12مئی کے جلسے عام پر جھگڑا فساد کیا، خدا بھلا کرے بلاول بھٹو کا کہ انہوں نے دور اندیشی سے معاملے کو سنبھالا اور یہ کہہ کر کہ پارٹی کو جلسہ دوسری جگہ کرنے کا حکم دیا۔ اب یہ جلسہ مزار قائدپر ہوگا اورپی ٹی آئی گلشن اقبال میں اسی دن اپنا جلسہ کرے گی۔ وزیرداخلہ پر گولیوں کی بوچھار کا معاملہ سنگین ہے۔ نارووال جو سیالکوٹ کی تحصیل ہے ان کا اپنا علاقہ ہے۔ وہاں پوری منصوبہ بندی کرکے ان پر قاتلانہ حملہ کروانا کسی اہم اشارے سے کم نہیں۔آخر حملہ آور کیا چاہتے تھے، کون ساپیغام دینا چاہتے تھے۔ےہ ہیں وہ سوالات جن کے جواب اب تک نہیں دیئے جاسکے، پولیس اور دوسری خفیہ ایجنسیوں انگشت بدندان ہیں لیکن سراغ ڈھونڈنے سے قاصر، کیا حکومت کو خوف زدہ کرنا تھا لیکن (ن)لیگ پنجاب میں اب بھی بہت مضبوط ہے۔مرکزی پنجاب میں خاص طور پر وہ پوری طرح حاوی ہے ، کیا وہاں سے اسے ہٹانا مقصود تھا۔ یہ ہیں وہ سارے معمے جو حل طلب ہیں۔ کیا انتخابات وقت مقررہ پر ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر الےکشن کمیشن نے اپنے ہی بیان کو واپس کیو ںلیا؟