اپنی زندگی میں ہمیں فطانت و ذہانت کے ساتھ جتنی بھی آگہی یا علم حاصل ہوا، اس کے پس پردہ ہماری مس شکیلہ ہی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اگر ہم اپنی زندگی سے مس شکیلہ یا ان کی عطا کردہ آگہی کو منہا کر دیں تو صرف اور صرف پاگل پن باقی بچے گا۔
ہماری زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا تھا جب ہماری مس شکیلہ کے ایک شاگرد، ہمارے ہم جماعت کی شادی ہوگئی ۔ اس کی نئی نویلی ’’نصف بہتر‘‘ نے اپنے دولہا یعنی ہمارے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے’’نصف بدتر‘‘! تم ہر بات میں، ہر معلومات میں، ہر قسم کے علم میں، ہر طرح کی فلم میں ،مس شکیلہ ، مس شکیلہ کا رونا روتے ہو۔ میں مس شکیلہ کا نام سن سن کر تنگ آ چکی ہوں، آج کے بعد سے تمہیں اپنی زندگی سے مس شکیلہ کا نام نکال دینا ہوگااور تمہیں ’’مائنس مس شکیلہ‘‘ کی زندگی گزارنی ہوگی۔ یہ سنتے ہی ہمارا دوست دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔ گھر والوں نے اسے جگایا، تھپڑایا مگر مجال ہے کہ اس میں کوئی حرکت ہوئی ہو۔ ایسے میں فوری طور پر ایمبولینس بلائی گئی اور اسے اسپتال پہنچایاگیا۔ 3دن آئی سی یو میں زیر نگرانی رہنے کے بعد موصوف نے آنکھیں کھولیں ۔ان کی دلہن نے استفسار کیا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کے دل اور پھیپھڑے وغیرہ وغیرہ کام چھوڑ کر چھٹی پر جانے کو سامان باندھ کر تیار ہو لئے؟ ہمارے دوست نے اپنی نئی نویلی نصف بہتر کو جواب دیا کہ کون کہتا ہے کہ ہمارے دل اور پھیپھڑے وغیرہ نے چھٹی جانے کا منصوبہ بنایا، آپ نے ہمیں کہا کہ آپ کو’’ مائنس مس شکیلہ ‘‘زندگی گزارنی ہوگی۔ یہ سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا اور مس شکیلہ کو میں نے اپنی سوچ سے مائنس کیا تو معاملات بہت خراب ہوگئے کیونکہ سارا علم، عقل، آگہی ، فراست و فہم تو مس شکیلہ نے دیا ہے، انہیں مائنس کر دیا تو پاگل پن باقی بچا ناں۔ بس یہ سوچ کر میرے اوسان خطا ہوئے اور میں ’’دھار‘‘ سے زمین پر گر گیا۔
نصف بہتر نے کہا کہ ابھی کیا حال ہے ، مس شکیلہ کو آپ نے اپنی زندگی سے مائنس کیا ہے یا نہیں؟ یہ سن کر ہمارے دوست نے کہا کہ اپنی زندگی میں تو مس شکیلہ پہلے بھی نہیں تھیں۔ صرف ان کی دی ہوئی آگہی سوچوںمیں تھی۔آج ہماری ’’ریاضی ہستی ‘‘یوں ہے کہ آپ بحیثیت بیگم میری زندگی میں ’’جمع‘‘ یعنی ’’پلس‘‘ ہو چکی ہیںچنانچہ چہار سو ہمیں ’’پلس ہی پلس دکھائی دیتا ہے کیونکہ ’’پلس کی مڈبھیڑ جب پلس سے ہوتی ہے تو نتیجہ بھی مثبت ہی ہوتا ہے۔ اسکے برخلاف پلس کا ٹاکرا اگر منفی سے ہوجائے تو نتیجہ منفی ظاہر ہوتا ہے۔ منفی اگر منفی سے متصادم ہوجائے تو اس کا انجام بھی مثبت ہوتا ہے اور منفی اگر پلس سے لٹھم لٹھا ہو بیٹھے تو اس نتیجہ مثبت ہی نکلتا ہے۔یہ سن کر نصف بہتر چلا اٹھیں کہ تم تو پاگل ہوگئے ہو۔ میں نے کہا جی بالکل بجا فرما رہی ہیں آپ کیونکہ میرے ذہن میں جو آگہی، جو علم اور جو بھی فہم تھا وہ مس شکیلہ نے دیا تھا۔ آج انہیں اپنی سوچوں سے مائنس کیا تو دہن سے علم و آگہی اور فہم فرار ہو گئے اور وہاں صرف اورصرف پاگل پن باقی رہ گیا ہے۔ یہ سن کر ہمارے دوست کی نصف بہتر رونے لگی اور گویا ہوئی کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی کہ میں نے تمہیں ’’مائنس مس شکیلہ شخصیت ‘‘ بننے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ سن کر ہمارے دوست نے کہا کہ غلطی تو ہوگئی ، خیر! آپ کو پتا ہے کہ غلطیاں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں بلکہ یوں کہئے کہ غلطیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور قسمیں کم ۔ ان کی مثال یہ ہے کہ ایک ہوتی ہے فاش غلطی، ایک ہوتی ہے معمولی غلطی، ایک ہوتی ہے بچکانی غلطی ، ایک ہوتی ہے دیوانی غلطی، ایک ہوتی ہے ایوانی غلطی،ایک ہوتی ہے حیوانی غلطی، ایک ہوتی ہے انسانی غلطی، ایک ہوتی ہے مشینی غلطی، ایک ہوتی ہے انجانی غلطی، ایک ہوتی ہے نادانی غلطی، ایک ہوتی ہے تعلیمی غلطی، ایک ہوتی ہے درسی غلطی ، ایک ہوتی ہے تدریسی غلطی،ایک ہوتی ہے نصابی غلطی، ایک ہوتی ہے شعری غلطی، ایک ہوتی ہے نثری غلطی، ایک ہوتی ہے سسرالی غلطی، ایک ہوتی ہے پیوسالی غلطی ، ایک ہوتی ہے مثالی غلطی، ایک ہوتی ہے ددھیالی غلطی، ایک ہوتی ہے ننھیالی غلطی،ایک ہوتی ہے استادی غلطی، ایک ہوتی ہے شاگردی غلطی، ایک ہوتی ہے عوامی غلطی، ایک ہوتی ہے خواصی غلطی، ایک ہوتی ہے جدید غلطی، ایک ہوتی ہے دقیانوسی غلطی، ایک ہوتی ہے نوخیز غلطی، ایک ہوتی ہے فرتوت غلطی،ان سب غلطیوں سے بڑی ایک غلطی ہوتی ہے اور وہ ہے ’’سیاسی غلطی‘‘۔ یہ وہ غلطی ہوتی ہے جو کوئی سیاستداں کرتا ہے اور جب عوام کسی نااہل سیاستداں کو منتخب کر لیتے ہیں تو یہ عام سے سرزد ہونے والی سیاسی غلطی ہوتی ہے جس کا مآل کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہ ایسی غلطی ہوتی ہے کہ .........ابھی ہمارا دوست یہیں تک پہنچا تھا کہ اس کی نئی نویلی دلہن ’’فلمی اداکارہ شبنم‘‘ کے انداز میں دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر چلائی ’’نہیں، نہیں، بس کرو ورنہ میں پاگل ہوجائوںگی۔ پلیز کوئی ایسی طریقہ بتائو کہ یہ سب غلطیاں دور ہوجائیں۔ یہ سن کر ہمارے دوست نے کہا کہ اس کا طریقہ ایک ہی ہے کہ زندگی سے ’’مس شکیلہ‘‘ کو مائنس کرنے سے جو آگہی، فہم ، فراست و علم مائنس ہو گیا تھا، اسے واپس لانے کے لئے مس شکیلہ کو زندگی میں پلس کر لیاجائے تاکہ ہماری سوچ علم، آگہی، فہم و فراست سے معمور ہوجائے۔بس مائنس کو پلس کرنے کی ضرورت ہے۔