Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا بلوچستان کی قسمت سنوار پائے گی؟

کراچی (صلاح الدین حیدر ) کہنے کو تو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے میں نئی بلوچستان عوامی پارٹی ظہور پذیر ہوگئی ہے لیکن واقعی یہ صوبے کی قسمت سنوارنے میں مدد گار ثابت ہوگی ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو کہ پسماندہ صوبے کا ہر شخص بچہ، بچہ پوچھ ر ہا ہے۔ امید تو یہی تھی کہ نئی پارٹی بننے کے بعد وہاں کی عوام کے زخموں پر مرہم رکھے جانے کی ابتداءہوگی۔بلوچستان نئی کروٹ لے گا لیکن ایسا تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔نئی پارٹی جو اسی سال19مارچ کو ظہور پذیر ہوئی میں بھی وہی قبائلی سردار شامل ہیں جنہیں بلوچستان کے عوام اپنی بدقسمتی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کیا اس بات کو نظر انداز کر دیا جائے کہ نئی معلومات نہیں۔ سینیٹ کے نئے چیئرمینپارٹی کا قیام صوبے کے چیف منسٹر ہاوس سے ہوا۔ نئے وزیر اعلیٰ عبداللہ قدوس بزنجو نوجوان سہی لیکن ا±ن کے خیالا ت کے بارے میں ابھی تک بہت زیادہ معلومات نہیں چیئرمین سینیٹ سنجرانی بھی اسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بلوچستان اور وہاں کی عوام کے حقوق کے بارے میں ان کی مثبت رائے کا ابھی تک انتظار ہے۔ شاید لمبے عرصے تک رہے۔ نئی پارٹی میں سعید احمدہاشمی اور انوار الحق کاکڑ جیسے لوگ آگے آگے ہیں۔ ان کا مطمع نظر اب تک صرف الیکشن لڑنا ہی دکھائی دیتا۔ لیکن ابھی تک ان کا منشور جس سے اس کے عوامی ہونے کا ثبوت مل سکے پیش نہیں کیا گیا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نئی پارٹی صرف سابق وزیر اعلیٰ ثناءاللہ ظاہری جو کہ خود بھی قبائلی سردار ہیں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور اقتدار پر قبضہ ہی نظر آتاہے۔تاریخ ہمیشہ آئینہ دکھاتی ہے۔بلوچستان کے روساءور امراءخواہ وہ اکبر بکٹی ہوں، سابق غوث بخش بزنجو عطا اللہ مینگل،ان کے صاحبزادے اختر مینگل یا خیر بخش مری نے بلوچستان کی حمایت میں آواز اٹھائی لیکن ذاتی مفادات یا اےک خاص نظر ئیے کے حصول کیلئے ایسے لوگ بلوچستان کی آزادی سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ معاملہ شاید کافی عرصے تک زیر بحث رہے۔ 1970میں معمولی اسٹوڈنٹ لیڈر یحییٰ بلوچ نے غوث بخش بزنجو کو شکست فاش دی۔ اس کے بعد اس جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے ےا پیدا ہونے نہیں دئیے گئے۔قیام پاکستان کے فورٍٍاً بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے خان آف قلات سے ملاقات کرکے انہیں پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی جو منظور کرلی گئی لیکن قائداعظم کے وعدے ردی کی ٹوکری کی نظر ہوگئے۔ بلوچستان ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملٹری آپریشن اور اےئر فورس سے ہوائی حملوں کی زد میں رہا، جس سے نفرتیں ہی بڑھیں۔ان میں کمی کوئی نہیں ہوئی۔آج بھی بلوچستان شکوہ گو ہے کہ اسے معدنی ذخائر ، سوئی گیس ، تانبا، اور سونے کے پہاڑ سے فوائد کیو ں حاصل نہیں کئے جاتے۔بلوچوں کی دولت کیوں عوام میں تقسیم نہیں کی جاتی۔ وہاں آزادی کی تحریکیں بھی چلیں ، لےکن سوئٹزرلینڈ میں رہنے والے سرداروں کے بچے، نعرے لگانے اور بسوں پر لندن اور جینوا میں اشتہار بازی کے سوا اور کچھ نہیں کرسکے۔بلوچستان کی آمدنی پر سب سے پہلے وہاں کے عوام کا حق ہے جو آج تک نہیں ملا۔ تو پھر بلوچستان عوامی پارٹی کا رول کیا ہوگا۔ کہنے کو نئی پارٹی کے لیڈران نے اعلان کردیا کہ ہم اپنا مسیج بلوچستان کی نوجوان نسل اور پاکستان کے دوسرے علاقوں تک اپنا پےغام پہنچانا چاہتے ہیں۔پارٹی کا آج سینیٹ کا چےئر مین ہے۔سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں 65میں سے 32 ممبر اسی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن یہ سب تو وہی لوگ ہیں جو (ن ) لیگ اور مشرف کی بنائی ہوئی قائداعظم مسلم لیگ یا (ق) لیگ سے ٹوٹ کرادھر آئے ہیں انہیں ابھی تک عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے تو پھر یہ پارٹی کیسے اپنے مقاصد حاصل کرپائے گی۔ اس سوال کے جواب کا سب کو انتظار ہے۔ 
مزید پڑھیں:فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے فیصلےکی توثیق

شیئر: