پاکستانی پارلیمان کا کردار
کراچی (صلاح الدین حیدر )اب جبکہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے میں صرف10 دن رہ گئے ہیں۔60 دن کے اندر پارلیمان کے ایوان زریں کے انتخابات ہونے والے ہیں تواکثر لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کیا پارلیمان نے اپنا کردار ادا کیا اور کمی رہ گئی تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ملک میں بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کہ آئندہ عوام الناس کو کیسے لوگ ایوان میں بھیجنے چاہئےں۔ موجودہ اسمبلی جو 342ممبران پر مشتمل ہے نے یکم جون 2013کو ایوان زیریں نے حلف وفاداری اٹھایا جس کے تحت ہر ممبر اس بات کا پابند تھا کہ وہ ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لے کام کرے گا لیکن کاش ایسا ہوتا ۔ اسمبلی کے ممبران نے پورے 5 سال بے اعتناعی کا ثبوت دیا ان کے نزدیک حلقے کے عوام تو شاید تھوڑی بہت اہمیت رکھتے تھے لیکن قومی مسائل شاذو نادر ہی زیر بحث آئے جو ہمارے پارلیمانی تاریخ کا بہ بہت بڑا المیہ ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دورے حکومت کے بعد 2008میں جمہوریت دوبار ہ بحال ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بے نظیر کی شہاد ت کا بھرپو ر فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمدردی کی بنیا دپر وفاقی ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں تخت نشین ہوئی۔ سوائے چند نمایاں کام کے کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دی ۔ ترقیاتی منصوبے دھر ے کے دھرے رہ گئے۔ لوگ آصف زرداری جو صدر مملکت بنے کو عجیب وغریب القابات سے نوازنا شروع کردیا۔پہلے ہی وہ مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور تھے بعد میں تو نجانے انہیں کیا کیا کہا گیا لیکن انہیں اس کی ذرا برابر پروا نہیں تھی۔ معروف اینکر حامد میر کے سوال پر کیا پی آئی اے، اسٹیل مل، اور دوسرے بڑ ے ادارے تنزلی کا شکار ہیں۔وہ بار بار صرف ایک ہی جملہ دھراتے رہے کہ ” آپ کی نظر میں “ مطلب صاف تھا کہ جو کچھ الزام دیا جاتا رہا ہے، وہ صرف کھلوا ڑتھا۔ حقیقت سے بہت دور، کوئی بھی سربراہِ مملکت اگر اس طرح بے زاری اور بے توجہی کا اظہار کرے تو نتائج وہی ہوتے ہیں جسے ملک آج تک بھگت رہا ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل قرضوں کے بوجھ تلے آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اسٹیل مل جو کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے اہم ترین ادارہ ہوتا ہے ۔ پچھلے دو سالوں سے بند پڑی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ 5 سال بعد( 2013میں) ہونے والے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو رد کردیا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میں حکومت میں بنائی۔ بلوچستان میں اسے قوم پرستوں سے اتحاد کرنا پڑا اور محمود خان اچکزئی،حاصل بزنجو جیسے خود ساختہ لیڈران سے مل کرمخلوط حکومت بنانا پڑی لیکن ڈاکٹر عبدالمالک جو کہ ان کے نمائندے تھے ۔ڈھائی سال بعد پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت (ن) لیگ کے قبائلی سردار ثناءاللہ ظاہری کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ وہاں بھی نئی عوامی پارٹی نے جنم لیا۔ اب شاید وہی جنوب مغربی صوبے میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرلے نواز شریف کے زمانے میں قومی اسمبلی کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا گیا۔ خود نواز شریف وزیر اعظم ہونے کے باوجود بمشکل 6 یا 7 مرتبہ اسمبلی ہال میں نظر آئے۔ ان کی دیکھا دیکھی تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے بھی اسمبلی کو اہمیت دینے سے انکار کردیا۔ گویا کہ ایک قومی سلامتی اور پالیسی ساز ادارہ عضومعطل ہوکر رہ گیا۔ قوم کے لئے بہ بات کسی سانحے سے کم نہیں تھی، چوں چوں کا مربہ بن کررہ گیا۔قومی اسمبلی نہ ہوئی مذاق ہوگئی۔