Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والد کی فرمانبرداری کے باعث مملکت میں ملازمت ملی، عبدالقادر

بھائی اور والدہ کیساتھ ،درمیان میں عبدالقادر
بڑی بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک خوبصورت گروپ
1990ء میں ہند میں دوستوں کیساتھ ایک یادگارتصویر

پردیس میںپرائے اپنے ہوجاتے ہیں، میرے بھائی والدین کی خدمت کرتے ہیںمیں کہتا ہوںتم مجھ سے زیادہ خوش نصیب ہو

 

انٹرویو:مصطفی حبیب صدیقی

آج ہم آپ کی ملاقات ہند وستان کے شہری عبدالقادر سے کرارہے ہیں جو کئی برسوں سے یہاں جدہ کی ایک کمپنی میںاعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ان کے بچے بھی یہیں پڑھے ہیں۔ وہ پردیس کو کیسا دیکھتے ہیں آئیے جانتے ہیں۔

* اردونیوز:عبدالقادر صاحب سب سے پہلے تو ہمارے قارئین کو یہ بتائیں کہ آپ ہند کے کس صوبے ،شہر اور جگہ سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ہم جان سکیںکہ پردیس میں دیس سے دوری کس درجے کی محسوس کی ہوگی آپ نے؟

*عبدالقادر :سب سے پہلے تو اردونیوز کا شکریہ کہ آپ لوگوں نے اتنا اچھا سلسلہ شروع کیا ۔پردیسیوں کے پاس بہت سے کہانیاں ہوتی ہیں ،خیر پہلے آپ نے سوال کیا اس کا جواب حاضر ہے کہ میرا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔جس کا دارالسلطنت بھوپال ہے جبکہ میرے شہر کا نام برہان پور ہے۔یہ شہر باب دکن کہلاتا ہے۔یہ مغلوں کے زمانے سے قائم ہے ۔جتنے بھی مغل بادشاہ گزرے سب ہی نے یہاں وقت گزارا اور شاہجہاں کی بیوی ممتاز کا انتقال ہوا تو شاہجہاں برہان پور میں تعینات تھا اور یہیں ممتاز کا انتقال ہوا۔کافی پرانا شہر ہے ۔جیسا کہ پاکستان میں لاہور ہے ۔یہاں قلعے ہیں ،فصیلیں ہیں ،پرانی اور تاریخی مساجد ہیں،کافی بزرگان دین بھی اس شہر سے تعلق رکھتے تھے۔

*اردونیوز:وہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کیاہوگا؟

*عبدالقادر: وہاں مسلمانوں کی آبادی 50سے60فیصد ہے ۔ یہ ایک ضلع ہے اور اس کی کل آبادی 5سے 6لاکھ ہوگی۔یہ ہندوستان کے ان چند شہروں میں ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے ۔یہاں اردو کا بڑا مرکز ہے آپ یہاں سے اردو میں پی ایچ ڈی تک کرسکتے ہیں۔

* اردونیوز:آپ کب سعودی عرب آئے ؟ اور اہل خانہ کے بارے میں بھی کچھ بتائیے گا۔

*عبدالقادر:میں1994ء میں ایک نجی کمپنی میں سیلزایگزیکٹو آیا تھا۔پہلے جدہ رہا۔پھر مدینہ منورہ تعینات رہا۔پھر میری ترقی ہوتی رہی۔میری اہلیہ عالمہ دین ہیں۔بیٹاسافٹ ویئر انجنیئر ہے،بڑی بیٹی میڈیکل میں ہے جبکہ 3چھوٹی بیٹیاں اسکول میں زیرتعلیم ہیں۔

*اردونیوز:یہاں آنے کا فیصلہ کیسا رہا ؟

*عبدالقادر:دیکھیں ایک واقعہ بتانا چاہوں گا۔جب میں نے ایل ایل بی کیا تو ظاہر ہے مجھے وکالت کرنا تھی ۔ میرے والدڈاکٹر محمود احمد شیخ سرکاری ملازم تھے جبکہ دین کی طرف بھی رحجان تھا۔بڑے خوف خدا رکھنے والے تھے۔انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔جب میں نے ایل ایل بی کرلی تو انہوں نے مجھے بلاکر منع کیا کہ وکالت نہیں کرنا۔میں نے پوچھا پھر کیاکروں تو انہوں نے کہا اللہ روزی کا راستہ کھولے گا۔1992ء میں محلے کی پرانی مسجد کی تعمیرنو ہورہی تھی۔محلہ کمیٹی نے مجھے مسجد کی تعمیراتی کمیٹی کا صدر بنادیا جبکہ اس وقت میری عمر صرف25سال تھی ۔میں نے سال ڈیڑھ سال مسجد کی تعمیر پر لگائے۔مسجد کے افتتاح پر دعا ہوئی کہ اللہ آپ کو مکہ اور مدینہ میں روزگار دے۔ افتتاح پر شاہی جامع مسجد کے پیش امام اور میرے عزیز دوست اور بھائی سید اکرام اللہ بخاری نے اجتماعی دعا کرائی۔وکالت میں چھوڑ چکا تھا۔اب آپ دیکھیں کہ اس زمانے میں کوئی انٹرنیٹ ای میل نہیں تھا۔ 1993ء میں ایک معروف مشروب کی کمپنی نے سعودی عرب میں کام شروع کیا۔انٹرویو ہوا اور میں 3مہینے میں یہاں پہنچ گیا۔میں نے والد کا حکم مانا اور مسجد میں دعا ہوئی ۔میں سمجھتا ہوں کہ والد کی فرمانبرداری اور مسجد کی تعمیر کی خدمت کے سبب اللہ نے مدینہ منورہ سے روزگار کا ذریعہ عطاکیا۔

* اردونیوز:اچھا یہاں مملکت میں بچوں کو دینی ماحول میسر آجاتا ہے جو بہت بڑا فائد ہ ہے مگر کیا کبھی اپنی ایشیائی یا برصغیر کی ثقافت سے بچوں کی دوری کا احساس ہوا؟

*عبدالقادر:جی بالکل ہوا ،بلکہ میرا خیال ہے پوری دنیا میں تارکین کو یہ احساس ہوتا ہے۔اگر میں اس کو دوسرے نظرئیے سے دیکھوں کہ مدینہ منورہ،مکہ مکرمہ اور جدہ ایسی جگہ ہے جہاں اتنا محسوس نہیں ہوتاکیونکہ یہاں ہمارے ممالک سے حجاج اور عمرہ زائرین کا آنا جانارہتا ہے اور بچوں کا تعلق قائم رہتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو لوگ مملکت کے دیگر شہروں میں مقیم ہیں شائد انہیں یہ زیادہ احساس ہوتا ہوگا۔ اپنی بنیاد سے بچوں کا تعلق قائم رہے اس کیلئے میں ہر 2یا 3سال بعد بچوں کو ہند میں اپنے شہر میںرکھتا ۔وہاں داخلہ کراتا اور ایک سال رکھنے کے بعد واپس بلاتا تھا۔اس کی وجہ سے بچے یہاں کی طرز زندگی اور وہاں کے طرز زندگی میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں کرتے تھے۔

*اردونیوز:یہ تو بڑے اخراجات والی بات ہے آپ کیسے اسے کرتے تھے؟

*عبدالقادر :واقعی یہ ہے تو اخراجات والی بات مگر میں اسے ایک سرمایہ کاری سمجھتا ہوں۔ بچوں میں خوداعتمادی اور حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہوئی ۔آج بچوں کے میرٹ پر داخلے ہوئے۔میرا بڑا بیٹا دانش’’ سیپ‘‘ میں کمپیوٹر انجینئر ہے اور ہند میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازم ہے۔پچھلے سال ہی اس کی شادی ہوئی اس کی بیوی کا نام ثنا ء زاہد خان ہے۔ بڑی بیٹی سلوا رونک بی ڈی ایس کررہی ہے جبکہ روئیدہ ہائی سیکنڈری میں ہے، ایمان اور ایلاف جڑواں ہیں ۔ماشاء اللہ اور دونوں ساتویں کلاس میں ہیں۔ *اردونیوز:بچوں کی پیدائش کے وقت گھر والوں کی ضرورت محسوس ہوئی؟

عبدالقادر:میری 2بچیاں یہاں پیدا ہوئیں۔جڑواں بیٹیاں ہیں ۔گھروالوں کی کافی کمی محسوس ہوئی تاہم پردیس میں بزرگوں کی کمی تو محسوس ہوتی ہے مگر پرائے اپنے ہوجاتے ہیں۔ 2005ء میں جب بچیوں کی پیدائش ہوئی تو پاکستانی اور بنگلہ دیشی پڑوسیوں نے بڑا خیال رکھا بلکہ ایک سوڈانی خاندان تھا پڑوس میں انہوں نے تو ہمارا ریفریجریٹر کھانوں سے بھر دیا۔

* اردونیوز:کبھی ایسا احساس ہوا کہ یہاں ہوں اور ملک سے کوئی ایسی اطلاع آجائے یا خوشی کی خبر ملے اور دل چاہئے کہ کاش میں وہاں ہوتا؟

*عبدالقادر: کم وبیش پردیس میں ہر کوئی ان حساسا ت سے گزرا ہوگا،میں دادا دادی کے انتقال پر نہیں جاسکا۔والدکو دیکھ کر آیا۔ ایئرپورٹ پر اترا تو اطلاع ملی کہ انتقال ہوگیا تو فوراً ہی واپس چلاگیا مگر مجھے تو یہ سہولت حاصل تھی۔ ہر کسی کو یہ سہولت نہیں ملتی۔مجھے سب زیادہ درد یہی ہے کہ جو لوگ پردیس میں رہتے ہیں اوراپنوں کو کھوتے ہیں اور سامنے نہیں ہوتے ۔دوسرا بزرگوں کی خدمت نہ کرنے کا درد ہوتا ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم پیسے کمانے کیلئے ثواب کمانے کا ذریعہ گنوا دیتے ہیں ۔مجھے اس بات کا ہی افسوس ہے۔میرے 2بھائی ڈاکٹر طارق شیخ اور ڈاکٹر صادق شیخ ہیں۔ دونوں والدین کی بہت خدمت کرتے ہیں۔میں انہیں کہتا ہوں کہ تم مجھ سے زیادہ خوش نصیب ہو۔

*اردونیوز:بچے کزنز اور رشتہ داروں سے دوری محسوس کرتے ہیں؟

*عبدالقادر:بالکل بچے وہاں زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔ہم چھوٹے شہروں کے رہنے والے ہیں،مکانات بڑے بڑے ہیں سب ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔بچے اس خاندانی نظام کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔

*اردونیوز:دوستوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟

*عبدالقادر:اپنے ملک میں تو میری بہت زبردست سیاسی اورسماجی زندگی رہی۔ میرے قریبی دوستوں کے حلقے میں مسلمان ،ہندو،سکھ اور عیسائی سب ہی ہیں۔دوست کافی یاد بھی آتے ہیں۔بچپن کے دوستوں کو بہت زیادہ یاد کرتا ہوں۔میں شاید ان چند لڑکوں میں ہونگا جنہوں نے دوستوں کی زندگی انجوائے کی۔آؤٹنگ ،جنگلوں میں جانا ،شکارکرنا یہ سب یہاں بہت زیادہ یاد کرتا ہوں۔جب بھی میں جاتا ہوں تو پھرسے سب جمع ہوتے ہیں اور پھر ایسے ہی انجوائے کرتے ہیں۔میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارے علاقے میں لوگ زیادہ تر ہجرت نہیں کرتے۔میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جو علاقہ چھوڑ کر باہر آیا ہوں ورنہ لوگ عموماً وہیں رہتے ہیں۔ہمارے علاقے میں ٹیکسٹائل و زراعت ہوتی ہے۔

*اردونیوز:کبھی واپسی کا نہیں سوچا؟

*عبدالقادر:ہر روز واپسی کا سوچتا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے اتنی اچھی جگہ ملازمت ملی ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں اس لئے واپسی ہونہیں سکتی۔

*اردونیوز:آپ کا شعبہ سیلز ہے ،کیا آج کے نوجوانوں کیلئے اس شعبے میں یہاں اسکوپ ہے؟

*عبدالقادر:جی بالکل یہاں سیلز میں بہت زیادہ ملازمتیں ہیں۔ بر صغیر کے نوجوانوں کو یہاں آنا چاہیے بس یہاں ایک مسئلہ ہے کہ زبان آنی چاہیے۔اس لئے عربوں کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ مجھے برصغیر کے لوگوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ عربی بولنے اور سمجھنے کی ویسی کوشش نہیں کرتے جیسی امریکہ اور یورپ جاکر انگریزی بولنے اور سمجھنے کی کرتے ہیں۔

*اردونیوز:آپ کی اہلیہ سے کچھ باتیں ہوجائیں، جی ساجدہ بانوصاحبہ کیا کہیں گی؟

*ساجدہ بانو:الحمداللہ معاشی استحکام تو حاصل ہوا مگر حرمین شریفین کی زیارت اور حرمین کے مہمانوں کی خدمت سب سے بڑی نعمت ثابت ہو ئی مگر جب وطن میں ہوتے ہیں تو شوہر کی فکر ستاتی ہے۔ جب پردیس میں رہتے ہیں تو بزرگوں کی یادیں،جدائی اور ان کی خدمات نہ کرنے کا احساس رہتا ہے۔

*اردونیوز:آپ کے بچوں سے بھی کچھ بات ہوجائے،کیا کہیں گے آپ لوگ ،کیسا محسوس کرتے ہیں پردیس اور اپنے دیس کو؟

بیٹا دانش اور بیٹیوں کے خیالات:جب والد ین غیرملک میں ہوں تو بچے بھی وہاں بڑی آسانی سے رہتے ہیں مگر پڑھائی کیلئے اپنے ملک آنا پڑے تو بچوں کو بہت مشکلات ہوتی ہیں۔اکیلے سفر کرنا،اپنی ذمہ داری اٹھانا،ہر قدم پر والدین کی کمی محسوس ہوتی ہے۔پھر اپنے ملک سے دور تو والدین ،خاندان اور علاقے کی تہذہب کافی حد تک نظر انداز ہوجاتی ہے مگر اپنے ملک آتے ہیں تو ان سب باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے جو کافی مشکل ہوتا ہے۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ،آپ کے تجربات سے کیوں نہ دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔۔

تو آئیے اپنی ویب سائٹ اردو نیوز سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ہم سے

فون نمبر        0966122836200 ext: 3428    ۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی  ۔۔

ای میل:[email protected])

شیئر: