محسن انسانیت اگر چہ قافلے کی تلاش میں نکلے کہ پیش نظر معاش تھا لیکن ﷲ تعالی کو کچھ اور ہی مقصود تھا کہ معاش سے قبل دفاع مضبوط کیا جائے
* * *ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد* * *
جس معرکے میں محسن انسانیت بذات خود شریک ہو
ئے مورخین اسلام نے اس کو غزوہ قرار دیا ہے۔غزوہ بدر اسلام کا سب سے پہلا اہم ترین غزوہ ہے۔ محسن انسانیت اپنے اصحاب کے ساتھ ابو سفیان کے تجارتی قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے،جنگ کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ابوسفیان کے قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ سے قریش امڈپڑے اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی گئی۔مسلمان فتحیاب ہوئے۔کافروں کے70 بڑے بڑے سردار مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔گرفتار شدگان میں سے دو کو محسن انسانیت نے قتل کروادیا کیونکہ وہ ذات نبوی کی توہین کرتے تھے۔باقیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔
دفاعی اثرات:
معاش اور دفاع ،انسانی معاشرے کے دو اہم ستون ہیں،بظاہر اور سطحی نظر سے معاش زیادہ اہم نظر آتا ہے کہ کھانے پینے پر انسانی زندگی کا انحصارہے لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے کیونکہ بچے کے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اسکا دفاعی نظام کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔نومولود ابھی ماں کے پیٹ سے برآمد ہورہا ہوتا ہے کہ ماحول کے جرثومے اس پر حملہ آور ہو چکتے ہیں،بچے کے زندہ بچ جانے کا انحصاراس دفاعی نظام کی کامیابی پر ہے، بصورت دیگر موت کے مہیب سائے اسے اپنی آغوش میں لے کر منوں مٹی کے نیچے داب دیتے ہیں۔ محسن انسانیت اگر چہ قافلے کی تلاش میں نکلے کہ پیش نظر معاش تھا لیکن اﷲ تعالی کو کچھ اور ہی مقصود تھااور وہ عین فطرت انسانی کے مطابق تھا کہ معاش سے قبل دفاع مضبوط کیا جائے،خواہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ میدان بدر کا پہلا نتیجہ مسلمانوں کی دفاعی کامیابی تھی اور دشمن کی دفاعی شکست تھی اگرچہ دشمن اپنی معاش یعنی وہ قافلہ بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔قرب و جوار کے قبائل پرخاص طور پر اور دیگر عرب قبائل پر عام طور پر دھاک بیٹھ گئی کہ قریش جو صدیوں سے ناقابل تسخیر تھے، مسلمان قوت کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے۔
تعلیمی اثرات:
اﷲ تعالی نے تخلیق کے آدم علیہ السلام کے فوری بعد جبکہ ان کا جسم کپڑوں سے ناآشنا تھا،شکم خالی تھا اور رشتہ دار عنقا تھے ، اولین جو ضرورت پوری کی وہ ترسیل تعلیم تھی۔اسی طرح بچہ دنیا میں آنے سے قبل ہی قدرت کے ہاں سے اپنی حاجات ضروریہ کی تعلیم حاصل کر کے آتا ہے۔اﷲ تعالی اسے رو کر اپنے اظہار کی تعلیم دے کر بھیجتا ہے ،اسکے سارے اعضائے جسمانی اپنا اپنا کام سیکھ کر اس دنیا میں وارد ہوتے ہیں اورآدم علیہ السلام کو تعلیم میں برتری کے باعث ہی خلافت ارضی کا منصب عطا ہواتھا۔غزوہ بدر کے اثرات میں فروغ تعلیم ایک اور بڑا عنصر ہے ۔اس زمانے میں تعلیم کا کوئی بہت زیادہ رواج نہ تھا اور مکہ جیسے قلب عرب میں کل 17پڑھے لکھے افراد تھے۔عرب اگرچہ اپنی زبان دانی کی بنیاد پر دوسروں کو عجمی یعنی گونگا کہتے تھے لیکن انکی اپنی زبان بھی ہنوز اعراب،نقطوں اور ڈنڈوں سے ناآشنا تھی،ان حالات میں نظر نبوی مسلمان بچوں کی خواندگی کی طرف اٹھی اور قیدیان بدر میں سے پڑھے لکھے لوگوں کو اس شرط پر آزاد کر دیا گیا کہ وہ مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں،اگرچہ وہ معلم غیر مسلم ہی تھے۔
درس انسانیت:
غزوہ بدر سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں کہیں یہ تصور ہی موجود نہ تھا کہ جنگی قیدیوں کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے،بڑی بڑی تہذیبیں اور علمی و تعلیمی تحریکیں اپنی اپنی عمر پوری کر چکی تھیں لیکن کسی کے ہاںانسانیت کا یہ تصور خیال بن کر بھی نہ ابھراکہ جنگی قیدی کو حق زندگی بھی حاصل ہوسکتاہے۔کل کے کل جنگی قیدی تہ تیغ کر دیے جاتے تھے اور مفتوحہ علاقوں کے افراد غلام بنا کر ہانک لیے جاتے تھے اور نسلوں تک طوق انکی گردنوں کا زیوبنے رہتے۔محسن انسانیت نے انسانی تاریخ عالم میںسب سے پہلے جنگی قیدیوں کو آزاد کیا جبکہ انہیں یہ مشورہ دیا بھی گیا تھا انکو قتل کر دیا جائے۔اس سے بڑھ کر درس انسانیت کہاں سے آئے گا کہ محسن انسانیت کروٹ پر کروٹ لیے چلے جا رہے ہیں اور مسلمان پوچھتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں نیند کیوں نہیں آرہی؟فرمایا چچاعباس( جوجنگی قیدیوں میں سے تھے اور انکی مشکیں کسی ہوئی تھیں) انکی آہیں سونے نہیں دیتیں،پہرے پر موجود مسلمانوں نے چچاعباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور وہ آسودہ ہو کر محو استراحت ہو چکے لیکن محسن انسانیت ابھی بھی کبھی ادھر کروٹ لیتے ہیں اور کبھی ادھر۔مسلمانوں نے پھر عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اب نیند کیوں نہیں آرہی؟ ارشاد ہوا جب جرم سب کا برابر ہے تو سب کی رسیاں ڈھیلی کرو، صرف عباس بن عبدالمطلب کی ہی کیوں؟چنانچہ پہلے جنگی قیدیوںپر نیندکی دیوی مہربان ہوئی اور بعد میںمحسن انسانیت نے آرام فرمایا۔
اجتماعی اعتمادنفسی:
یہ معرکہ بدر کے اثرات میں سے وہ اہم امر ہے جس کا براہ راست اثرنومولودمسلمان معاشرے پر ثبت ہوا۔وہ مسلمان جو13 سال تک مکہ کی سرزمین پر پٹتے رہے،ماریں کھاتے رہے،پتھرسہتے رہے،گرم ریت پر لٹائے جاتے رہے ،جن کی راتوں کا چین اور دن کا سکون چھین لیا گیا تھا حتی کہ مکہ مکرمہ جیسے آبائی وطن کی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔پھر مدینہ منورہ میں بھی پورا عرب،منافقین اور یہودمدینہ انہیں بھگوڑے سمجھتے رہے،مجرم گردانتے رہے اور سازشیں تیار کی جاتی رہیں کہ کب اور کس طرح انہیں قریش کے حوالے کر دیا جائے۔ان حالات میں انہیں مکہ والوں کے خلاف جنگ لڑ کر فتح حاصل کرنا،انہیں تہ تیغ کرنا اور بڑے بڑے سرداروں کوجن کی گردنیں خم نہ ہوتی تھیں اور جن کے ہاتھ کوڑے مار مار کر تھکتے نہ تھے انکی لاشیں بے گوروکفن مٹی میں رلتے ہوئے دیکھنااور بقیہ کو گرفتار کر کے ساتھ لے آنااور سینکڑوں قریش مکہ کو میدان سے ذلت و شکست خوردگی کے ساتھ جانیں بچاکربھاگتے ہو ئے دیکھنا خوشی مسرت اور اعتماد نفسی کا وہ ذریعہ ہے جو شاید کسی اور طریقے سے کبھی حاصل نہ ہو سکتاتھا۔اب وہی مارکھاکھاکرہجرت کرنے والا مسلمان فاتح ہے،جنگ جیت کر پرانے قرض چکانے کے مقام پر ہے اورغلام،غریب اور مجرم اب مد مقابل ہے اور جیت کے احساس کے ساتھ رب کے سامنے شکر گزار ہے۔
یوم الفرقان:
قرآن عظیم نے اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے یوم الفرقان کہا ہے یعنی حق اور شر کے درمیان فرق کرنے والا دن۔بظاہر حالات بتاتے تھے کہ مسلمانوں کی شکست یقینی ہے 313افراد اور واجبی سے کپڑوں کے ساتھ ہتھیار بھی سلامت نہیں تھے جبکہ پورے لشکر میں کل دو گھوڑے اور باربرداری کے لیے دس بارہ اونٹ تھے اور مقابلہ اس لشکرجرار کے ساتھ تھا جو سر سے پاؤں تک لوہے میںڈوبا ہواتھا اور ہتھیاروں اور گھوڑوں کی کوئی کمی نہ تھی ،لشکریوں کے لیے ایک دن 90اور دوسرے دن 100اونٹ ذبح کیے جاتے تھے۔ان حالات میں قرآن کے مطابق صرف حق کی قوت تھی جس نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا تھا۔
مذہبی اثرات:
یہود مدینہ جو قدیم آسمانی کتب کے حامل تھے،اور منافقین جو اندر سے مسلمانوں کے دشمن تھے غزوہ بدر سے قبل یہ دونوں گروہ پھولے نہیں سما رہے تھے اب مسلمانوں کا قلع قمع ہو چکے گا اور بھلا قریش سے ٹکر لے کر کون بچ سکتا ہے اور بس ایک آدھ دن میں اس نئے نبی کا دین قصہ پارینہ ہو کر کتابوں میں دفن ہو نے والا ہے العیاذ بااﷲ تعالی۔اور یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ منورہ میں موجود مسلمانوں کے گھر اور عورتیں بچے بھی آپس میں بانٹ لیے تھے کہ شکست کی خبر آتے ہی کسے کیا کیا ملے گا۔لیکن نتائج نے سب کو حیران کر دیا جب مسلمان لشکر فاتحانہ انداز سے اپنے گھروں کو لوٹا اس سے مسلمانوں کے نومولود مذہب کی حقانیت ان دونوں گروہوں کے دلوں پر ثبت ہو گئی۔
معاشی اثرات:
لٹے پٹے مسلمان ہجرت کر کے تو مدینہ پہنچے تھے،ان کے لیے اپنی جان بچا آنا بھی بہت بڑی کامیابی تھی۔ایسے میں جب ایک چھوٹی سی بستی میں بہت سے مہاجر آن پہنچیں اور اوپر سے جنگ کا خوف اور یہود و منافقین کی سازشیں ہر دم تلوار کی طرح سر پر لٹک رہی ہوں تو ان امور کا لازمی نتیجہ معاشی بدحالی تھا۔چنانچہ نماز سے قبل ایک اعلان کرنے والا خواتین کی طرف منہ کر کے اعلان کرتا تھا کہ بی بیو نماز میں مردوں کے اٹھنے کے تھوڑی بعد اپنا سر اٹھانا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ غربت کے مارے مسلمانوں نے ٹاٹ کے کپڑے محض ناف سے گھٹنے تک باندھ رکھے ہوتے تھے اور وہ کپڑے اس قدر بھی نہ تھے کہ ایک پلو دوسرے پر چڑھ سکے پلو کھینچ کر انہیں کھجور کے پتوں سے سی لیا گیا ہوتا تھا،ایسے میں امکان تھا کہ نماز میں اٹھتے ہوئے کسی نمازی کا پلو جسم سے سرک جائے اور کسی خاتون کی نگاہ پڑ جائے۔غربت اور فاقہ کشی کے ان حالات میں قیدیان بدر سے حاصل کیا گیا فدیہ مسلمانوں کی معاشی حالت سنبھالنے کا باعث بنا۔
شہدائے بدر:
قیامت تک زندہ رہنے والی اس امت میں شہدائے بدر وہ خوش قسمت گروہ ہے جس کی نصیب حاصل کرنے کی خواہش ہی کی جاتی رہے گی۔روایات کے مطابق یہ لوگ جب جنت میں داخل کیے گئے اور نعمتیں دیکھ کر حیران ہو گئے اور اﷲ تعالی سے کہنے لگے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے دنیا میں بھیج دے ہم پیچھے رہ جانے والوں کو تیری جنت کے بارے میں کچھ بتا دیں۔اﷲ تعالی نے جواب دیا کہ یہ میری سنت کے خلاف ہے ۔پھر انہوں نے کہا کہ اچھا ہم میں سے کسی ایک کو بھیج دے اس پر بھی انکار ہوا تو تب انہوں نے عرض کی اے بار الہ ہمارا پیغام ان تک پہنچا دے چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں :جو لوگ اﷲ تعالی کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو ،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں جو اﷲ تعالی نے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو خوشخبری دے رہے ہیں کہ ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔
تاقیامت اہل ایمان جس طرح بدری صحابہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے اسی طرح فرشتوں میں بدری فرشتوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ،بدری فرشتے وہ ہیں جنہوں میں میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کی تھی۔
مزید پڑھیں:- - - -