Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریحام کی کتاب اور پی ٹی آئی

***سید شکیل احمد***
اردو بول چال میں انگریزی زبان کے بے جا او ر متشدّدانہ استعمال نے زبان دانی او ر علمیت کا بیڑہ غر ق کر کے رکھ دیا ہے اور غلط العام کا ناجائز سہا را لیکر علمی اہلیت میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا جا تا ہے ۔ خیر یہ الگ سے موضوع ہے مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ انسانی کے ذاتی نا م بڑی دلچسپ صورتحال رکھتے ہیں ۔ کسی شخصیت کا نا م اس کے حق ملکیت پر ایسی گرفت رکھتا ہے کہ اس بارے میں کسی دوسرے کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔نا موں کا موضوع دلچسپ بھی ہے جس پر پورا دفتر بھرا جا سکتا ہے مگر اس وقت بات ہو گی رہا م خان کی ۔
وہ اپنا نام اردو میں ریحام خان ہی لکھتی ہیں اور اخبارات میں اسی طرح چھپتا ہے۔ نا م کے بارے میں دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ بامعنی ہو نا چاہیے۔ ریحام دنیا کی کسی زبان کا لفظ نہیں ۔ جب یہ لفظ دنیائے  اسلا م کی کسی زبان میں شامل نہیں  تو ظاہر ہے کہ اس کے معنیٰ بھی بے معنی ہیں البتہ رہا م عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ ہیں فرحت بخش پھوار ، مسلسل بارش یا پھوارچنا نچہ رہا م خان یا ریحام خان کا درست نا م کیا ہے یہ وہ خود ہی فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہیں، اس میں کسی کو حق نہیں  حتیٰ کہ با با رحمتے بھی از خود نو ٹس لینے سے عاجز ہیں ۔ 
چلیںنا م میںکیا رکھاہے۔ بے نا م بھی نا مور ہو تے ہیں۔ اس وقت رہا م خان یا ریحام خان کی کتا ب سب سے زیا دہ نا مور ہے جو ابھی چھپی نہیں۔ اس کے چرچے عام ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ کتا ب انتخابی دور کی ایّام عا م قرار پا ئیگی بلکہ پا گئی ہے۔ اس موقع پر پشاور کے عالمی شہرت کے شاعر خا طر غزنوی کی انتہا ئی مشہو ر غزل کا ایک شعر یا د آرہا ہے کہ :
میں  اسے  شہرت کہو ں  یا  اپنی  رسوائی  کہو ں 
 مجھ  سے   پہلے  اس  گلی  میں میر ے افسانے گئے 
قابل تو جہ امریہ ہے کہ ایک کتاب جو ابھی تک مسودے کی صورت رکھتی ہے، اس کے صفحات یا پورا مسودہ کیسے چوری ہو گیا ۔گویا یہ کتا ب اس اہمیت کی حامل ہے کہ پی ٹی آئی نے کسی سیا ہی کے پھیلتے ہی مسودے کا پیچھا کیا اور اس کو ہتھیا لیا جو ظاہر ہے کہ اخلا قی اصولو ں کے زمر ے میں نہیں آتا ۔ کتا ب لکھنا ریحام خان کا حق ہے۔ وہ کیا لکھتی ہیں اس میں ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جو بھی لکھیں سچ لکھیں، سچ کے علا وہ کچھ نہ لکھیں لیکن کتاب کے جو اقتباسات منظر عام پر پی ٹی آئی کے کمانڈوز لائے ہیں وہ اس امر کی غما زی کر رہے ہیںکہ واقعی یہ کتا ب پی ٹی آئی کی بعض شخصیت کے کر دار پر بجلی بن کر کوند تی  ہے لیکن ہو ا کیا؟ کہتے ہیں کہ جس امر کا خوف تھا جس کے لیے اتنی جدوجہد کی کہ مسودہ کتا بی شکل نہ اختیا ر کر سکے اس خوف کو سرعام خود ہی بے نقاب کر دیا۔ کیا عقل مندی کا کر دا ر ادا کیا ہے؟ جس کی پردہ پو شی چاہتے تھے اس کو برہنہ کر بیٹھے۔ کتا ب کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی ایسی شہر ت حاصل ہو گئی کہ عام شہر یو ں میں جن میں مطالعہ کا شوق باقی نہیں رہا بے چین نظر آرہے ہیں۔ پو چھتے پھر رہے ہیںکہ کتا ب کب سو ق العام میںدستیا ب ہو گی ۔ اگر ریحام خان لاکھو ں خرچ کر کے بھی کتا ب کی تقریب رونمائی کر تیں تو بھی وہ کتا ب کی شہر ت کی وہ خواہش حاصل نہ کر پا تیں جو پی ٹی آئی کے دانشو رآمو ز نے آسان کر دی۔
قانون دان کہتے ہیںکہ ہتک عزت کا نو ٹس اُس وقت دیا جا تا ہے جب ہتک رونما ہو جائے۔ ابھی کتا ب چھپی بھی نہیں  اور 4 افراد کی جانب سے ریحام خا ن کو ہتک عزت کے نو ٹس جا ری کر دئیے گئے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جن افرا د نے یہ نو ٹس جاری کئے ہیں ان کو یہ بتانا پڑے گاکہ ان کے پا س کتا ب کا مسودہ کس طور آیا؟یا جیسا کہ ریحام خان کا گمان ہے کہ یہ چور ی کیا گیا ہے ۔ گویا ان پر مسودہ چور ی کرنے کا الزام لگ سکتا ہے ۔جن 4 افراد کی جا نب سے قانو نی نو ٹس جاری کیا گیاہے انھوں نے اس نو ٹس کی وجو ہ  کو ابلا غ عام کر دیا ہے۔ کتا ب چھپی نہیں ، اس میں یہ باتیں ہو ں گی بھی یا لیکن اپنے بارے میں پول خود کھول دیا ہے ۔ ان نو ٹس دینے والو ں میں ریحام خان کے پہلے شو ہر اعجا ز رحما ن بھی ہیں۔ اعجا ز رحما ن نہ صرف قریبی عزیز کا درجہ اب بھی رکھتے ہیں( اعجا ز، ریحام خان کے پھوپھی زاد ہیں) بلکہ دونو ں گھر کے بھید ی بھی ہیں ۔
ریحام خان کی مجو زہ کتا ب کے بارے میں غور کیا جا ئے تو  ایسامحسو س ہو تا ہے کہ ریحام خان نے یہ کتا ب ایک صحافی ، بیوی ، سیاستدان اور شہر ی کی حیثیت سے لکھی ہے۔ جہاں تک اعجا ز ، سابق کرکٹراوردوسرے 2افرا دکی جانب سے نو ٹس کا تعلق ہے، اس میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ان چارو ں نے ایک ہی فرم کے ذریعے مشتر کہ طور پر نو ٹس کیو ں بھجو ائے ؟ کیا یہ سب کسی خاص منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہے ، جیسا کہ ریحام خان کا استفسار ہے کہ پی ٹی آئی ان کی کتا ب کی اشاعت پر کیو ں بے کل ہو رہی ہے کہ کسی پل چین نہیں آرہا   اور محتر مہ کو دھمکیا ں بھی دی جا رہی ہیں۔ خواتین نے اپنی زندگی کے تجربات سے متعلق پہلے بھی کتابیں لکھی ہیں جس میں اپنی نجی زندگی کو مو ضوع بنا یا گیا ہے۔ ایسے میں فواد چوہدری کا کلبلاناعجیب ہے ۔ریحام خان سے قبل تہمینہ درانی نے بھی مائی باس کے نا م سے کتاب تحریر کی ہے جو اُن کے ان تجر بات پر مبنی ہے جب وہ پنجا ب کے سابق مر د آہن غلا م مصطفی کھر کے زوجیت میں تھیں ۔ اِن دنو ں پنجا ب  کے سابق خادم اعلیٰ کی زوجیت میں ہیں لیکن غلام مصطفی کھر کتا ب پر قطعی چین بچیںنہیںہو ئے ۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے تہمینہ درانی کی یہ کتا ب مزے لے لے کر پڑھی۔ اب بھی وہ پی پی سے پی ٹی آئی میں آنے کے باوجود کتا بوںکی الما ری سے نکال کر دھو ل جھاڑ کر ایک دو ورق کی گر دانی کر نے کے بعد دوبارہ الما ری میں سجا دیتے ہیں ۔
فوادچوہدری جن کو ہر اس پا رٹی کا ترجمان ہونے کا اعزاز رہتا ہے جس میں انھو ں نے قدم ٹکائے ہو تے ہیں،  اعتراض ہے کہ الیکشن کے اس مو قع پر ریحام خان کا کتا ب شائع کر نے کا پر وگرام یہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کسی خاص ایجنڈے پر عمل پیر ا ہیں۔ یہ کوئی دور کی کو ڑ ی نہیں ہے۔ الیکشن ہی وہ معروف دن ہو تے ہیں جب ووٹر اپنے لیڈرو ں کے اصل چہرے بے نقاب دیکھنے کا متمنی ہو تا ہے ۔ اس سے اچھا مو قع کوئی دوسر انہیںہو سکتا تھا۔ پھر اس کتا ب کو ہاٹ کیک سے بھی زیا دہ فر وخت کا بندوبست پی ٹی آئی کے اکابرین نے کر دیا ہے تو پھر ریحام خان ایسا سنہر ا مو قع کیو نکر گنو ائیں گی ۔جس طرح کتا ب کی اشا عت سے پہلے ریحام خان کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی دھمکیا ں دی جا رہی ہیں، وہ کتا ب کی اشاعت کے بعد زیا دہ مو ثر اند از میں ہو سکتی ہے اگر اس میں جھو ٹ وعنا د ہو ا۔
 

شیئر: