Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توفیق کی ’’گلابو‘‘ کا رنگ پھیکا پڑگیا

’’ہمارے پاس سکون ہے،پیار ہے ،محبت ہے ،بچے ہیں ،ہم سب ایک چھت تلے ہیں ،کیا یہ کم ہے‘‘

 

 

مصطفی حبیب صدیقی

 

’’شبنم شبنم !دیکھو میں یہ کیا لایا‘‘توفیق گھر میں زور زور سے چیختا ہوا داخل ہوا۔۔ ’’کیا ہے کیا لے آئے ،میں کام کررہی ہوں نا وہیں سے بتادو ۔۔‘‘

شبنم نے باورچی خانے سے ہی جواب دیا ۔

توفیق اور شبنم کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی،دونوں کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے،بنگلہ دیش کے معروف صنعتی شہر چٹاگانگ کے دیناج پور ضلع کے چھوٹے سے علاقے میں رہائش پزیر اس جوڑے کی محبت اور گھر میں سکون کی پورا محلہ مثالیں دیتے نہیں تھکتا تھا۔مگر توفیق کی ایک ہی بری عادت تھی کہ وہ بہت جلد دوسروں کی چیزوں اور آسائشوں سے مرعوب ہوجاتا تھا بس اسی عادت نے کیا گل کھلایا آگے سنئے۔ ’’نہیں تم یہاں آئو برآمدے میں ،ہم اپنی گلابو کو دیکھ کر ہی یہ خوشخبری سنائیں گے‘‘توفیق نے حسب روایت شبنم کو اس نام سے پکارا جسے لو گ ’’پیار‘‘ کا نام کہتے تھے۔ ’’ہاں آگئی بولو !کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔‘‘

شبنم بھی باورچی خانے سے باہر آتے ہوئے لمبی لٹکتی چوٹی کو اپنے سامنے سے پیچھے دھکیلتی ہوئی باہر آئی اور اتراتے ہوئے بولی۔ ’’یہ دیکھو یہ کیا ہے،یہ پاسپورٹ ہے ،میں یونان جارہا ہوں ،بس تھوڑا سا راستہ غیرقانونی ہے پھر تو سب قانونی ہی قانونی ہے ،پھر دیکھنا ہمارے پاس پیسا ہی پیسا ہوگا‘‘

توفیق اپنی دھن میں بولے جارہا تھا۔ ’’مگر یہ تم کیا کررہے ہو،میں اور بچے اکیلے کیسے رہیں گے ،توفیق ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ،خوشی ہے ،سکون ہے ،پھر کیوں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے ہو‘‘۔

شبنم کا دل بری طرح دکھی ہورہا تھا۔ ’’کیا ہے ہمارے پاس،ہمارے بچے ٹکے ٹکے کے کھلونے کیلئے ترستے ہیں،تم ہر وقت باورچی خانے میں رہتی ہو،گھر میں ہفتہ ہفتہ بھر گوشت نہیں پکتا،بچوں کے اسکولوںکی فیسیں چڑھ جاتی ہیں،دکاندار کا ادھار سر آتا ہے،کیا ہے بتائو‘‘

توفیق غصے سے پاگل ہورہاتھا۔ ’’ہمارے پاس سکون ہے،پیار ہے ،محبت ہے ،بچے ہیں ،ہم سب ایک چھت تلے ہیں ،کیا یہ کم ہے،باقی تو گزر بسر ہوہی جاتی ہے مگر دکھ سکھ کے ساتھی ہیں ،کیا ضرورت ہے اس طرح جانے کی ،اس طرح تو تمہاری زندگی کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے میری مانو تو مت جائو ،ہم دونوں مل کر کوئی کام کرتے ہیں پھر دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا،مجھے نہیں چاہئے کچھ بھی ،میں باورچی خانے میں خوش ہوں،بس تم میرے پا س ہو یہی میرے لئے بہت ہے‘‘۔

شبنم نے ایک ہی سانس میں اپنے تمام دلائل ختم کرڈالے۔مگر توفیق کے سر پر کسی بھی طرح یورپ جانے کی دھن سوار تھی اور وہ نہیں مانا۔ رات بھر بیگ پیک کرتے ہوئے بھی دونوں میاں بیوی میں دلائل کی جنگ ہوتی رہی،توفیق اپنی شبنم کو بلکہ اپنی گلابو کو سونے سے لدا دیکھنا چاہتا تھا،وہ لال سرخ ساڑھی میںلپٹی گلابو کو ہر وقت دلہن بنائے رکھنا چاہتا مگر اس کی جیپ اسے اجازت نہیں دیتے۔آخر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے توفیق پیار سے بھرا گھر چھوڑ کر چل پڑا۔

شبنم آنسوئوں کی لڑی ساتھ اپنے دونوں بچوں کولپٹائے اپنے شوہر کو آخر ی وقت تک روکتی رہی مگر وہ ناکام رہی۔ ایجنٹ نے چٹاگانک سے سمندری راستے کے ذریعے توفیق سمیت دیگر 20افراد کو ایک ڈنکی میں روانہ کیا۔ڈنگی کو ایک چھوٹے جزیرے پر رکنا تھا جہاں سے تقریباً50کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنا تھا۔کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد رات کی تاریکی میں ڈنکی ایک چھوٹے جزیرے پر رکی جہاں سے ا ب کچھ اندر جاکر ایک چٹیل میدان کا سفر کرنے کے بعد جنگل شروع ہونا تھا۔ایجنٹ نے 20افراد کو اس جزیرے پر اتارا اور یہ کہہ کر آگے بڑھادیا کہ وہ جنگل کے اس جانب انہیں ملے گا۔ توفیق اور اس کے ساتھ دیگر 19افراد نامعلوم اور انجانے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنگل میں داخل ہوچکے تھے۔ایجنٹ انہیں دھوکا دے چکا تھا۔

توفیق کو اب رہ رہ کر اپنی بیوی اور بچے یاد آنے لگا۔کئی گھنٹے بھوکے پیاسے پیدل چلنے کے بعد جب وہ ایک جنگل کے قریب پہنچے تو گھپ اندھیرا تھا جس سے خوف زدہ ہوکر وہیں جنگل کے کنارے ہی بیٹھنے کا فیصلہ کیاگیا۔ 20افراد کے گروپ میں شامل ڈھاکا یونیورسٹی کا سابق طالب علم ارجیت بھی تھا ۔راستے میں سفر کے دوران توفیق سے کچھ بات چیت کے دوران دونوں کی دوستی ہوچکی تھی۔دونوں نے ایک دوسرے کے نمبرز بھی شیئر کرلئے تھے۔جبکہ اپنے گھروں کے نمبر بھی ایک دوسرے کو دیدیئے تھے۔

’’ارجیت ،اب کیا ہوگا ،تم تو پڑھے لکھے ہو کچھ تو سجھائی دے رہا ہوگا‘‘۔توفیق کے سوال پر اجیت بھی تھوڑا چونکا اور بولا ’’یا ر کیا خاک پڑھا لکھا ہوں جو اس ایجنٹ کے چکر میں پھنس گیا،کیا برا تھا جو اپنے ملک میں ہی یہ 5لاکھ روپے سے کوئی کاروبار کرلیتے۔‘‘

ارجیت کی مایوسی بھی اب نمایاں تھی۔ خیر کسی نا کسی طرح صبح ہوگئی ،اب سب لوگوںنے جنگل میں جانے کا فیصلہ کیا ،آہستہ آہستہ آگے بڑھے،ایک انجان راستے پر چلے جارہے تھے کہ جنگی جاروں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں،ایک دن اور ایک رات سے بھوکے تمام افراد کی ہمت اب جواب دیتی جارہی تھی،جنگل سے جنگلی پھل اور پتے توڑ کر ہی پیٹ کی آگ بجھاتے بجھاتے کسی نا کسی طرح وہ لوگ جنگل پار کرنے میں کامیا ب ہوگئے مگر اس دوران ایک شخص بھوک وپیاس کی شدت سے موت کی وادی میں جاچکاتھا۔توفیق کیلئے یہ بہت بڑا غم تھا۔

اب توفیق کو رہ رہ کر اپنا پیار بھرا گھر یاد آنے لگا مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔19افراد کا قافلہ آگے بڑھتا گیا ،جنگل میں ایک رات اور گزر گئی،اور تیسری صبح جنگل سے باہر ایک پہاڑی علاقے میںنکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ بڑی مشکل سے پہاڑ پر چڑھ کر دوسری جانب اترنے کی کوشش کی تو سرحدی فورسز نے فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر پر مزید4افراد دم توڑ گئے جو بچ گئے وہ بھی بکھر گئے۔

خیر توفیق اور ارجیت کسی نا کسی طرح سرحد کی اس پار پہنچنے میں کامیا ب ہوگئے۔ توفیق اور ارجیت کئی دنوں کے سفر کے بعد یونان کی سرحد پر پہنچے تو انہیں سرحدی پولیس نے پکڑ لیا،دونوں کو جیل میں ڈالاگیا ،بدترین تشدد کیاگیا،کئی کئی دن فاقے کرائے گئے ،توفیق کو اب رہ رہ کر اپنا گھر اور بیوی بچے یاد آنے لگے۔اسے اب بچوں کا ہفتے ہفتے بھر بعد گوشت کھانا ،بیگم کا وہی ایک ساڑھی میں رہنا اور رنگ ادھڑتے گھر ی رونق ستانے لگی۔

توفیق کا شبنم سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔قید کو ایک سال بیت گیا۔یہاں کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ ایک دن آخر توفیق کو کسی نا کسی طرح ایک شخص ملا جس نے اسے وہاں سے نکالنے میں مدد کی ۔ توفیق ایک سال بعد اپنے گھر لوٹا تھا مگر خالی ہاتھ جو تھا وہ بھی گنوا بیٹھاتھا ۔ دروازے کی کنڈی کھٹکنے کے انداز سے ہی ’’گلابو‘‘ جان گئی اس کا توفیق آگیا۔دوڑتی ہوئی دروازے پر لپکی اور دروازہ کھولتے ہی سینے لگ گئی۔ ’’کہاں چلے گئے تھے،کیوں چھوڑ گئے مجھے ،اتنا بھی نہیں سوچا کیاہوگا میرا اور بچوں کا ،سب کو بھول گئے ،کچھ تو اطلاع دی ہوتی،فون ہی کردیا ہوتا ،دیکھو میں رو رو کر پاگل ہوگئی ہوں،میری آنکھیں سوج گئیں اور تم ہو کہ ایک اطلاع تک نہیں ‘‘

شبنم کے شکوئوں کا سلسلہ تھمنے والا نا تھا ۔جب کچھ کمی آئی تو نظر اٹھاکر توفیق کی طرف دیکھا اور پھر دھک سے رہ گئی،یہ وہ توفیق نہیں تھا۔ توفیق پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘‘مجھے معاف کردو۔۔شبنم میں دوسروں کی چیزوں دیکھ کر اپنے گھر کا سکون بھول گیا تھا،میں کس راستے پر چل دیاتھا،میرے اللہ کا شکر ہے کہ میں زندہ واپس آگیا۔اب میں کبھی تم لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جائوگا۔

توفیق کی واپسی ہوچکی تھی اور یہی اس کی خوش نصیبی تھی مگر توفیق کی گلابو کا رنگ پھیکا پڑچکاتھا۔

 

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔

اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔

آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔ ای میل:[email protected]

شیئر: