Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیا کی سودے بازی

 اسٹنگ آپریشن سے میڈیا پر عام لوگوں کا اعتماد کمزور ہوا ہے، میڈیا پر چند کاروباری گھرانوں کی لونڈی بننے اور صاحبان اقتدار کے اشاروں پر رقص کرنے کا جو سنگین الزام عائد کیاجارہا تھا اس کی بھی تصدیق ہوگئی
معصوم مرادآبادی
    جمہوری نظام میں آزاد اور خود مختار میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اسے جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیاگیا ہے۔ جمہوری نظام میں میڈیا ایک ایسے عنصر کے طورپر ہمیشہ سرگرم رہا ہے جس نے تمام خطرات مول لے کر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے۔ میڈیا نے اپنی آزادی کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ جمہوری نظام میں مجبور و لاچار لوگوں کو زبان بھی عطا کی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جب سے ہمارے ملک میں جمہوری اداروں کا زوال شروع ہوا ہے اور فسطائیت نے اپنے پاؤں پھیلائے ہیں تب سے میڈیا بھی اپنے کردار سے بھٹک گیا ہے۔ ظاہر ہے جمہوریت میں میڈیا کی بے عملی ہی خطرناک اور جان لیوا نہیں ہوتی بلکہ اس کا اپنے محور سے بھٹک جانا سماج کیلئے سب سے زیادہ مضر ہوتا ہے۔
    یہ بات سبھی لوگ جانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ سیاسی نظام میں میڈیا کو سکوں کی جھنکار پر رقص کرنا سکھایاجارہا ہے ، خواہ اس کے عوض سماج میں کتنی ہی خرابی اور نراج کیوں نہ پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ میڈیا ہاؤس دولت کے عوض ملک کے امن وامان سے کھلواڑ کرنے اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی پر بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس کا اندازہ نیوز ویب سائٹ ’’کوبرا پوسٹ‘ ‘ کے انکشافات کی ان 2قسطوں سے ہوتا ہے جو حال ہی میں یکے بعد دیگرے منظرعام پر آئی ہیں۔ کوبرا پوسٹ کی طرف سے کئے گئے اسٹنگ آپریشن میں بڑے بڑے میڈیا ہاؤس اور ٹی وی چینل پیسوں کے عوض وہ سب کچھ کرگزرنے پر تیار نظر آتے ہیں جو میڈیا کی زبان میں ’’قحبہ گری‘‘ کے زمرے میں آتا ہے حالانکہ ابھی ہمارے ملک میں ایسے باضمیر اور خوددار لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو میڈیا کی آزادی اور خودمختاری کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار نظر آتے ہیں اور وہ تمام تر خطرات کے باوجود اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کررہے ہیں لیکن ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دولت کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے نیوز چینل اور نامی گرامی اخبارات جس طرح دولت کے عوض گھٹنوں کے بل چلنے کو تیار ہیں، وہ یقینا ہمارے جمہوری نظام کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔
    ’’کوبراپوسٹ‘‘ کا پہلا اسٹنگ آپریشن جب پچھلے دنوں منظرعام پر آیا تھا تو اسے دبانے اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل کرنے کی تمام کوششیں ہوئی تھیں۔ بیشتر میڈیا ہاؤسوں نے اس خبر کو دبا دیا تھا۔ اس مرتبہ اس اسٹنگ آپریشن کی زد میں آنے والے بعض میڈیا ہاؤسوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنے بارے میں ہونے والے شرمناک انکشافات پر پابندی لگوالی لیکن اسٹنگ آپریشن کا باقی حصہ جوں کا توں منظرعام پر آگیا ہے اور اسے بآسانی یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔ تازہ انکشافات کی رو سے ہندتو کے ایجنڈے اور اپوزیشن رہنماؤں کو بدنام کرنے کیلئے بھگوا مہم میں میڈیا کی سانٹھ گانٹھ ظاہرہوئی ہے۔ ’’کوبرا پوسٹ‘ ‘نے اپنے تازہ اسٹنگ آپریشن 136کی دوسری قسط میں بڑے انکشافات کا دعویٰ کیا ہے۔ اس قسط میں بڑے میڈیا گروپوں پر الزام ہے کہ انہوں نے سیاسی سودے بازی کی اور اپوزیشن قائدین کو بدنام کرنے کیلئے خصوصی مہم چلائی۔ اتنا ہی نہیں ملک کے نامور میڈیا ہاؤس پر الزام ہے کہ وہ رقم لے کر انتخابی فائدے کیلئے ہندتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر تیار ہوگئے۔ اس اسٹنگ آپریشن میں ٹائمز گروپ ، انڈیا ٹوڈے، زی نیوز، نیٹ ورک 18، اے بی پی نیوز جیسے مشہور ٹی وی چینلوں کے علاوہ دینک جاگرن، ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز جیسے اخبارات شامل ہیں۔ ان اخبارات کے خاص اہلکاروں نے خفیہ کیمروں میں ریکارڈ بات چیت میں وہ سب کچھ کرگزرنے کا دعویٰ کیا ہے جن کی اجازت صحافتی اخلاقیات دور دور تک نہیں دیتی۔ ان میں سب سے چونکانے والا نام موبائل ادائیگی ایپ ’پے ٹی ایم ‘کا ہے جس کے ذریعے لوگ روزانہ کروڑوں کا لین دین کرتے ہیں۔ پے ٹی ایم کے عہدیداران کہتے ہیں کہ ہم لوگ آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی ایپ ہے جس نے نوٹ بندی کے دوران سب سے زیادہ دولت کمائی تھی اور یہ الزام عائد کیاگیا تھا کہ در اصل نوٹ بندی ایسے لوگوں کو فیض پہنچانے کیلئے کی گئی ہے۔
    ’’کوبرا پوسٹ‘‘ کے مطابق خفیہ کیمرے کی مدد سے پورے آپریشن کو انجام تک پہنچایاگیا ہے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ میڈیا ہاؤس دولت کے عوض فرقہ وارانہ صف بندی کی خبروں کو شائع کرنے کیلئے تیار ہوگئے جس سے ایک خاص پارٹی کو انتخابی فائدہ پہنچایا جاسکے۔ اس اسٹنگ آپریشن میں الزام عائد کیاگیا ہے کہ میڈیا ہاؤس صحیح قیمت ملنے پر اپوزیشن لیڈروں کیخلاف خبریں گڑھنے پر بھی آمادہ تھے۔ یوں تو میڈیا پر پچھلے کچھ عرصے سے یہ الزام لگایاجارہا ہے کہ وہ اپنی خبروں اور مباحثوں کے ذریعے حکمراں جماعت کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور اس نے اپنی آزادی اور خودمختاری کو گروی رکھ دیا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھا اور میڈیا ہاؤس اسے افواہوں سے تعبیر کرتے تھے۔ لیکن ’’کوبرا پوسٹ‘ ‘نے اپنے اسٹنگ آپریشن میں نہ صرف یہ کہ میڈیا کا فرقہ وارانہ چہرہ بے نقاب کیا ہے بلکہ یہ بھی اجاگر کردیا ہے کہ یہ مشہور ومعروف اخبارات اپوزیشن لیڈروں کو بدنام کرنے کیلئے فرضی خبریں گڑھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ظاہر ہے اس اسٹنگ آپریشن سے میڈیا پر عام لوگوں کا اعتماد کمزور ہوا ہے اور میڈیا پر چند کاروباری گھرانوں کی لونڈی بننے اور صاحبان اقتدار کے اشاروں پر رقص کرنے کا جو سنگین الزام عائد کیاجارہا تھا اس کی بھی تصدیق ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - - -بددعا سے بچیں

شیئر: