Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری کالجز روبہ زوال

اساتذہ کو اگر مناسب تنخواہ دی جائے تو وہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ ایک ہی جگہ کے طلبہ کو احسن طریقے سے تعلیم دے سکتے ہیں

 

 

محمد عتیق الرحمن ۔ فیصل آباد

یہ بات درست ہے کہ کالجوں کے اساتذہ کی زیادہ توجہ ہوم ٹیوشن اور اکیڈمیز پر ہوتی ہے اور ان اکیڈمیز میں زیادہ تر سرکاری کالجز کے اساتذہ ہی پڑھاتے ہیں لیکن اس کے پیچھے کے عوامل ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔سرکاری کالجز کے اساتذہ کی اہمیت اپنی جگہ ہنوز قائم ہے اور اکثر اکیڈمیز انہی کا نام استعمال کرکے اپنا کاروبار چمکاتی ہیں اور طلبہ بھی انہی اساتذہ سے پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ایک انجینئر اور ڈاکٹر کے پیچھے جہاں دیگر عوامل کار فرما ہوتے ہیں وہیں بنیادی کردار استاد کا ہوتا ہے لیکن اس کی تنخواہ ایک انجینئر سے کہیں کم ہوتی ہے اور پھر اس کے اوپر دیگر ذمہ داریاں ڈال کر اسے طلبہ سے دور کیا جاتا ہے ۔ ووٹنگ ، مردم شماری ودیگر حکومتی حکم ناموں پر اساتذہ ہی کو آگے کیا جاتا ہے اور یوں طلبہ کا تعلیمی سال جو بے تحاشا تعطیلات سے سکڑ جاتا ہے ، مزید سکڑ جاتا ہے ۔

اساتذہ کو اگر مناسب تنخواہ دی جائے تو وہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ ایک ہی جگہ کے طلبہ کو احسن طریقے سے تعلیم دے سکتے ہیں ۔کالج کی آئوٹ لُک بھی بہت معنی رکھتی ہے ، نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار نے سرکاری کالجز کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ شاندار عمارتیں اور مکمل اسٹاف اوردیگر سہولیات طلبہ و والدین کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جبکہ سرکاری کالجز میں سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی کمی اور کلرک حضرات کا درشت رویہ مزید دوری کا باعث بنتا ہے ۔آج بھی اکثر کالجوں کی کلاسوں کی حالت وہی ہے جو آج سے15،20 سال قبل تھی ۔سرکاری کالجز میں طلبہ کی کمی کے پیش نظر داخلہ ٹیسٹ کے بغیر داخلہ دے دیا جاتا ہے اور ساراسال طلبہ کلاس کا منہ تک نہیں دیکھتے اور اساتذہ کے پاس ایساکوئی اختیار نہیں کہ انہیں کلاس لینے پر مجبور کرسکیں ماسوائے اس کے کہ بورڈ اور یونیورسٹی قانون کے مطابق75فیصدحاضری ضروری ہونی چاہئے۔ سائنس کے مضامین پڑھنے والے طلبہ کی حالت تو مزید پتلی ہوتی ہے۔

لیبارٹری میں ناکارہ اور کم سامان کی وجہ سے اکثر میٹرک وایف ایس سی کے طلبہ کو پریکٹیکل نہیں کروائے جاسکتے اور امتحان میں سفارش سے کام چلا کر پاس کروایا جاتا ہے ۔یہی طلبہ جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔ نصاب میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت نہ ہونا بھی طلبہ کی تعلیم پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے آج بھی ہمارے کالجز میں وہی تعلیمی طریقہ کار ہے جس سے ہمارے بڑے گزر کر آئے تھے جبکہ دنیا جدیدسے جدید کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم ابھی تک کالجز کے مسائل کا رونا رو رہے ہیں ۔

سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارے محترم اساتذہ ، سیاستدان ، حکمران ، بیوروکریٹس و دیگر سماجی رہنما اپنی اولاد کو ان میں بھیجنا گوارا نہیں کرتے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو سستی اور معیاری تعلیم مہیا کرے نہ کہ عوام الناس کو نجی تعلیمی اداروں کے سپرد کرکے تعلیمی پالیسیاں نافذ کرتی رہے ۔ دینی مدارس کو حکومت دائرہ کار میں لانے سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ مدارس کو ساتھ ملانے میں آسانی ہو۔ اساتذہ ودیگر اسٹاف کی کمی کو فی الفور مکمل کیا جائے اور ان کو قابل قدر مراعات دی جائیں تاکہ یکسوئی سے قوم کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کرسکیں۔ رٹا سسٹم اور منتخب سوالات کی تیاری کو مکمل طور پر ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ طلبہ محنت کو اپنا شعار بناسکیں ۔ سرکاری کالجز میں مضامین کے انتخاب میں طلبہ کی پسند کو مدنظر رکھاجائے اور اس حوالے سے انہیں رہنمائی فراہم کی جائے ۔ اساتذہ اور تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اس پیشہ کی قدر کی جائے تاکہ ہمارا معاشرہ سیاسی ،سماجی اور معاشرتی طور پر بالغ ہوسکے اور پاکستان صحیح معنوں میں پاکستان بن سکے ۔

شیئر: