Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں پیدا ہونے والے غیر ملکیوں کے مسائل

سعودی عرب میں جوان ہونے والی تارکین کی تیسری نسل سعودی عرب کا وہ سرمایہ ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے

 

عبد الستارخان

سعودی عرب میں غیرملکیوں کی آمد کا سلسلہ بہت قدیم ہے تاہم تیل کی دولت کے بعد روزگار اور بہتر مستقبل کی تلاش میں غیرملکیوںنے 1950ء کے بعدہی یہاں کا رخ کرنا شروع کیا تھا۔پاکستانی ان تارکین میں سے ہیں جنہوں نے سعودی عرب کی ترقی کی پہلی اینٹ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ شاہ سعود ؒ کا آخری اور شاہ فیصلؒ کے دور کا آغاز تھا۔

جب یہاں دولت کی ریل پیل شروع ہوئی تو دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں تھا جس کے تارکین یہاں کسب معاش کے سلسلے میں نہ آئے ہوں۔ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں کے رہائشی سعودی عرب آنے والے اولین لوگ تھے۔ ان کے بعد بلوچ ہیں جو سعودی عرب کی قدیم ترین کمیونٹی مانے جاتے ہیں پھر 60ء اور70ء کی دہائی میں دیگر صوبوں کے رہائشیوں نے یہاں کا رخ کیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک66سال ہوگئے ہیں۔ 70ء کی دہائی تک بیشتر آنے والوں نے سعودی عرب کی شہریت لے لی تھی جبکہ کثیر تعداد ایسی بھی تھی جن کا خیال تھا کہ ہم چند سال تک خوابوں کی تعبیر پانے کے بعد وطن واپس چلے جائیں گے مگر وہ چند سال دہائیوں میں تبدیل ہوگئے۔ 50ء کی دہائی میں سعودی عرب آنے والے پاکستانیوں کی تیسری نسل اب جوان ہوگئی ہے۔ ان کے ساتھ ان کے اسلاف نے جو زیادتی کی وہ ناقابل معافی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 70ء تک جب ان کو سعودی شہریت پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جارہی تھی اس وقت انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی اور چند سال مزیدکے چکر میں دہائیاں گزاردیں۔

ان کی تیسری نسل آج بھی اقامہ والی ہے جس طرح اسلاف اقامہ والے تھے۔قانون کی نظر میں سعودی عرب میں جوان ہونے والی تیسری نسل کی حیثیت بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایک دن قبل نئے ویزے پر آنے والے کی ہے۔ اس نسل کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں ان کی فہرست کافی طویل ہے تاہم سرفہرست ان کی وابستگی کا مسئلہ ہے۔ یہ نہ تو پاکستانی ہیں اور نہ سعودی۔ گوکہ ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے ، پاکستان کے شہری بھی ہیں، پاکستان بھی انہیں اپنا شہری تسلیم کرتا ہے مگر ان کا پاکستان کے ساتھ تعلق شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک محدود ہے۔اقامہ تجدید کرنے کے لئے اگر پاکستانی پاسپورٹ ان کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ اس رشتہ کو بھی کب کا توڑ چکے ہوتے۔سعودی عرب میں مقیم اس طبقہ سے تعلق رکھنے والی بڑی آبادی موجود ہے۔

جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ اور نادرا کے حکام گواہی دیں گے ہر دوسرے تیسرے دن اقامہ کی تجدید کی مجبوری انہیں گھسیٹ کر لے آتی ہے۔حقیقت میں یہ طبقہ رحم کے قابل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تمام تر وابستگیاں سعودی عرب کے ساتھ ہیں مگر قانونی طور پر ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ حقیقت ہم غیر ملکیوں کو تسلیم کرنی ہوگی کہ مملکت میں جہاں غیرملکیوں کا قیام سعودی عرب کی ضرورت ہے، وہاں یہی غیر ملکی مملکت کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر ملکیوں کے حوالے سے قانون میں کوئی رورعایت نہیں۔افسوس کہ یہ حقیقت سعودی عرب میں آنکھ کھولنے والی نسل کو بہت دیر سے معلوم ہوئی۔ یہ حقیقت اس وقت معلوم ہوئی جب یہ نوجوان کسی نہ کسی کیس میں پھنس گئے اور انہیں ملک بدر کیا گیا۔ اندرون سندھ کے شہر دادو جائیں یا جو ہی کے ہوٹلوں سے آپ کا گزر ہو، کراچی کے بعض محلوں کا جائزہ لیں یا سرائیکی بیلٹ کو دیکھ لیں ، آپ کو ہر جگہ سعودی عرب سے بیدخل کئے جانے والے نوجوان نظر آئیں گے جو کسی چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر آپس میں عربی میں باتیں کرتے ہوئے ملیں گے۔

یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے سعودی عرب میں آنکھ کھولی، پاکستانی پاسپورٹ کے سوا انہیں ملک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے گھر میں بول چال عربی تھی، ان کا طرز زندگی سعودیوں والا تھا اور سوچ وفکر کا انداز بھی مقامی تھا۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں پاکستان کی ہوا کھانی پڑے گی۔ وہ کسی نہ کسی چھوٹے موٹے جرم میں گرفتار ہوئے، انہیں سزائیں ہوئیں اور ملک بدر کردیا گیا۔ جاتے جاتے ان کے فنگر پرنٹ اور آئی اسکیننگ کی گئی۔ اب یہ زندگی بھر مملکت واپس نہیں آسکیں گے۔ مقامی اخبار ’’عکاظ‘‘ میں سعودی کالم نگار عبدہ خال نے ہفتہ 3دسمبر کے شمارے میں اس طبقہ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔میں ذیل میں عبدہ خال کے کالم کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں’’ہمارے ہاں ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس طرف ہماری توجہ نہیں جارہی۔ وہ مسئلہ ہے ان افراد کا جو ہیں تو غیرملکی مگر سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔

سعودی عرب میں پیدا ہونے والے ان نوجوانوں کے مسائل روز بروزبڑھتے جارہے ہیں۔ہمارے پاس ان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔اصولا ً ہونا یہ چاہئے تھا کہ میڈیا ان کے مسائل کو اجاگر کرتااور ان کے لئے حل تلاش کئے جاتے۔ میرا خیال ہے کہ گورنر مکہ مکرمہ شہزادہ خالد الفیصل نے اس مسئلے کے حل کے لئے پہل کی تھی جسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے برمی کمیونٹی کو اقامہ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔گوکہ برمی کمیونٹی کے خصوصی حالات ہیں مگر چونکہ مسائل ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اس لئے جہاں انہوں نے ایک معاشرتی مسئلے کے حل لئے پیشرفت کی ہے وہاں دیگر کمیونٹیز کے نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے قدم بڑھائیں۔ سعودی عرب میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کے متعلق میں نے اس سے پہلے کئی مرتبہ لکھا ہے۔

آج پھر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جن کے اسلاف ہمارے ہاں مدت سے مقیم ہیں۔ یہ ان کی تیسری نسل ہے جو سعودی عرب کی سرزمین پر پیدا ہوئی ، یہاں پلی بڑھی اور یہاں کے عادات اور اطوار سے اچھی طرح واقف ہے۔یہ ہمارا وہ سرمایہ ہے جو ضائع ہورہا ہے اور ہم اس سے کسی طور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں جنہیں اگر ہم موقع دیں تو وہ ثابت کر دیں گے کہ وہ اہل ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس طبقے کے مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی حالانکہ یہ ملک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ کبھی مجلس شوریٰ میں کسی رکن نے اس طبقے کے مسائل پربحث نہیں کی۔جس طرح برمی کمیونٹی کے مسائل حل کئے گئے اسی طرح اس طبقے کے مسائل بھی حل کئے جائیں‘‘۔ عبدہ خال نے نہ صرف دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے بلکہ بین السطور کئی اہم معاملات کی طرف نشاندہی بھی کی ہے۔ سعودی عرب میں جوان ہونے والی تارکین کی تیسری نسل سعودی عرب کا وہ سرمایہ ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

یہ طبقہ شہریت کا امیدوار نہیں تاہم کچھ رعایتوں کا طلبگار ہے۔ اسے چند مراعات دے کر بڑے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، مثلا اس طبقہ کو کفالت سے مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے، اقامہ 4سال کا کیا جاسکتا ہے، چھوٹی موٹی تجارت کی آزادی دی جاسکتی ہے،پہلی مرتبہ کسی جرم میں ملوث ہونے پر بیدخل نہ کیا جائے۔اور دیگر قسم کی مراعات بھی دی جاسکتی ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس طبقے کو کس طرح معاشرے کا فعال فرد بنایا جاسکتا ہے۔

شیئر: