Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیر زمین ذخیرہ آب لا تعلق، زمزم

آب زمزم کا کنواں خانہ کعبہ سے 21 میٹر دور ، مشرق ملتزم کے بالمقابل ہے، خلفائے و سلاطین اور حکام اس کی خدمت کرتے رہے ہیں

بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آب زمزم پینا، حج اور عمرہ کا لازمی جز وہے ، ایسا ہرگز نہیں، زمزم کسی بھی وقت مستحب ہے

 

دوسرا حصہ

آب زمزم کے فضائل وخصوصیات متعدد ہیں ، چند کا ذکر کیا جارہا ہے: آب زمزم جنت کے چشموں میں سے ایک ہے( مصنف بن ابی شیبہ) آب زمزم روئے زمین کا افضل ترین ـپانی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ روئے زمین کا سب سے افضل پانی زمزم ہے ، اس میں غذائیت بھی ہے اور مرض سے شفا بھی (طبرانی ) آب زمزم کا چشمہ روئے زمین کے سب سے مقدس مقام پر ہے ۔ زمزم کے چشمے کا وجود اور ظہور حضرت جبریل ؑکے واسطے سے ہوا جو اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے ۔ آب زمزم کے ذ ریعے رسول اللہ کا قلب اطہر4 بار مختلف موقعوں پر دھویا گیا یعنی حلیمہ سعدیہ ؓ کے یہاںبکریاں چرا نے کے دوران ، آپکے بچپن میں، نبوت و بعثت سے قبل اور واقعہ معراج سے قبل ۔ آب زمزم خوب سیر ہوکر پینا ایمان کی علامت قرار دیا گیا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے ارشاد فرمایا ’’خوب سیر ہوکر زمزم پینا نفاق سے برأت ہے کیونکہ منافقین اسے خوب سیرابی کی حد تک نہیں پیتے ‘‘ آب زمزم خوب سیر ہوکر پینے کے بعد قبولیت ِ دعا کا موقع ہوتا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ آب زمزم پینے کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ ! میں تجھ سے علم نافع ، رزق واسع او ر ہرمرض سے شفائے کلی کا سوال کرتا ہوں ‘‘ آب زمزم کا پینا بہت سارے امراض سے شفا یابی کا سبب بنتا ہے۔

امام قزوینی اپنی کتاب ’’عجائب المخلوقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آب زمزم بہت سارے لاعلاج امراض سے شفا ہے، اللہ تعالیٰ نے بیشمار انسانوں کو اس کی برکت سے شفا بخشی ۔ اما م ثعالبی اپنی کتاب ’’ ثمار القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے امراض سے نجات پانے کے لئے دنیا بھر کے چشموں کا تجربہ کرنے کے بعد آب زمزم سے شفا پائی ۔ شفا آب زمزم کی خاصیت ہے کہ جسے رسول اکرم نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا ہے، یہ بشارت قیامت تک باقی رہے گی ، رسول اللہ کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے نیک نیتی اور ایمان و یقین کے جذبے سے جو بھی اسے پئے گا اسے انشاء اللہ مقصد میں ضرور کامیابی ملے گی ۔

قیامت سے قبل سارے چشمے خشک ہوجائیں گے مگر آب زمزم کا چشمہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ ضحاک بن مزاحم کی روایت ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ میٹھے پانی کو قیامت سے قبل اٹھالے گااور زمزم کے علاوہ سارا پانی زیر زمین چلا جائے گا۔ زمین اپناسارا سونا چاندی اگل دے گی، ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص تھیلا بھر کر سونا چاندی لیکر گھومے گا اور اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔ اہل مکہ میں یہ رواج عام تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کی تواضع آب زمزم سے کرتے اور اسے پیش کرنے میں تفنن اختیار کرتے ، اس کے لئے خاص مٹی اور ریت کی صراحیاں بناتے اور اسے خوشبو اور دھونی میں بساتے پھر اس میں آب زمز م محفوظ کرتے اورٹھنڈا ہونے پرمہمانوں کو خوبصورت نقشین و قلعی شدہ پیالوں میں پیش کرتے ۔ اسی طرح مائیں اپنے بچوں کو اسکول میں امتحان میں شرکت سے قبل آب زمزم پلاکر بھیجتیں۔ آج بھی شاید ہی کوئی حاجی یا زائر ایسا ہوگا جو اس دیار مقدس میں آئے اور بغیر زمزم کے تحفے کے اپنے گھر واپس جائے ۔

وطن واپس پہنچنے پر اپنے اہل و عیال، عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو ایک حاجی جو سب سے قیمتی اور بابرکت و مقدس تحفہ پیش کرتا ہے وہ مکہ مکرمہ سے لائے ہوئے آب زمزم کا ایک گھونٹ اور مدینہ منورہ کی چند کھجوریں ہی ہوتی ہیں۔ آب زمزم انتظامیہ کل اور آج: اللہ تعالیٰ نے مقدس سرزمین کو آب زمزم جیسی انمول نعمت سے نوازا ہے۔ آب زمزم ہی مقدس شہر مکہ مکرمہ کی سعادت کا باعث بنا۔ آب زمزم کا چشمہ پھوٹا تو مختلف قبائل کے افراد نے یکے بعد دیگرے مکہ مکرمہ کو بسانا شرو ع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اپنے خلیل ابو الا نبیاء ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خانہ کعبہ تعمیر کرنیکاحکم دیا تاکہ یہ بستی لوگوں کیلئے جائے پناہ اور دارالامن بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی ، دونوں کہہ رہے تھے کہ ہمارے پروردگار! ہم سے ہمارا یہ عمل قبول فرما، تو بلاشبہ بہت سننے والا بہت جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور یاد کیجئے وہ وقت جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے جائے امن و جائے پناہ بنایا اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا دو۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو حکم دیا کہ تم میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھو۔ آب زمزم کا کنواں خانہ کعبہ سے متصل واقع ہے۔ آب زمزم کے کنوئیں میں چٹانوں سے پانی آتا ہے۔ یہ ریخیں خانہ کعبہ ، صفا و مروہ کے اطراف پھیلی ہوئی ہیں۔ ان سے نکلنے والا پانی کنوئیں میںآکر گرتا ہے ۔ آب زمزم کا مبارک چشمہ ہی مکہ مکرمہ کی تعمیر کا اہم سبب بنا۔

ابتداء میں جو لوگ یہاں پہنچے ان کی خواہش یہی تھی کہ آب زمزم کے قریب انہیں رہائش حاصل ہوجائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آبادیاں آبی ذخائر کے ا طراف ہی بسا کرتی تھیں۔ آب زمزم کا کنواں خانہ کعبہ سے 21 میٹر دور ، مشرق ملتزم کے بالمقابل واقع ہے۔ مسلم خلفائے و سلاطین اور حکام اس کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی مسلم حکام اس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ سعودی عہد میں آب زمزم کی نگہداشت کا عمل نقطہ عروج کو پہنچ گیا ۔ زمزم کے کنوؤں کی عمارت نہایت خوبصورت اور موزوں بنائی گئی ہے۔ زائرین کو آب زمزم فراہم کرنے کے تمام انتظامات کر دیئے گئے ہیں۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے مکہ مکرمہ کی پہلی حاضری کے موقع پر مسجد الحرام کی تعمیر و تزئین کا کام شروع کردیا تھا ۔ انہوں نے آب زمزم کی سبیل سے خصوصی دلچسپی لی۔

1340 ھ میںنجی خرچ پر آب زمزم کی پہلی سبیل قائم کی پھر 1347 ھ میں زمزم کے کنوئیں کے مشرق میں دوسری سبیل کھلوائی۔ کافی عرصے تک آب زمزم کنوئیں سے ڈول کے ذریعے نکالا جاتا رہا۔ 1373 ھ میں آب زمزم پمپ کے ذریعے نکالنے کی شروعات ہوئی۔ کنوئیں سے آب زمزم پہلے ٹنکی میں ذخیرہ کیا جاتا اور پھر اس سے کنوئیں کے اطراف ٹونٹیوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ 1400 ھ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کی جنرل پریذیڈنسی نے حرم شریف کی سبیل کا خصوصی ادارہ قائم کیا۔ 1381 ھ میںزمزم کے کنوئیں کی منڈیر کو تاریخ میں پہلی بار مطاف کے فرش سے 2.5 میٹر نیچے کردیا گیا۔ آگے چل کر مطاف کے نیچے تہ خانہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کا ایک حصہ مرد زائرین اور دوسرا حصہ خواتین کے لئے مختص کیا گیا۔

تہ خانہ میں 39 ٹونٹیاں نصب کی گئیں۔ 1992 ھ میں آب زمزم پلانے کیلئے کئی نئے اقدام کئے گئے۔ مثال کے طور پر ڈول کے ذریعے زمزم پلانے پر پابندی اور آب زمزم کی سبیلوں کی صفائی اور تعقیم کا فیصلہ ۔ آب زمزم کو تغیر سے بچانے کیلئے یہ کیاگیا کہ اس کی تعقیم بالائے بنفشی شعاعوں کے ذریعے کی جائے اور دیگر طریقے کا لعدم ہوں۔ 1399 ھ میں غوطہ خوروں کی مدد سے پہلی مرتبہ آب زمزم کے کنوئیں کا معائنہ کیا گیا۔ غوطہ خوروں نے کنوئیں کی پیمائش کی، اسے صاف کیا۔ 1400 ھ میں آب زمزم کا کنواں صاف کیا گیا۔ اس کی تطہیر کی گئی۔ کلورین سے تعقیم کی گئی۔ اس کی دیواروں کو دھویا گیا اور اس کا پانی پمپ سے نکالا گیا۔ کنوئیں کا عرض تقریباً 4 میٹر پایا گیا۔ کنوئیں کی دیواریں کنوئیں کے منہ سے تقریباً 16 میٹر 18 سینٹی میٹر کی گہرائی کے ساتھ اندر سے قلعی کردہ ہیں۔ 1400 ھ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کی جنرل پریڈیڈنسی نے آب زمزم کی سبیل کا خصوصی ادارہ قائم کیا۔ یہ زائرین کو آب زمزم کی فراہمی کے تمام انتظامات کرتا ہے۔ ٹھنڈا اور سادہ آب زمزم زائرین کو فراہم کرتاہے۔ آب زمزم کی تعقیم اور اسے ٹھنڈا کرکے حرمین کے زائرین کو مہیا کرتا ہے۔

آب زمزم کا ادارہ شروع میں مختصر تھا، رفتہ رفتہ اسکا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا۔ واٹر کولر کی صفائی کی نگرانی، مقررہ مقامات پر واٹر کولرز رکھوانا، ان میں پانی بھروانا، نئے گلاس رکھوانا، پرانے اٹھوانا سبیلوں کی صفائی، زمزم کی فراہمی میں حفظان صحت کے ضوابط کی پابندی پر امور ہے۔ زمزم کی تعقیم، مسجد نبوی کو آب زمزم کی فراہمی ، ٹینکوں کی صفائی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس سے قبل آب زمزم، برف کی سل سے ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ 1405 ھ میںجنرل پریذیڈنسی نے آب زمزم کے معائنے کیلئے مکمل لیباریٹری قائم کی۔ 1424ھ میں آب زمزم کے تہ خانے پر چھت ڈالی گئی ۔ تہ خانہ میں موجود زمزم کی ٹونٹیاں صحن حرم میں منتقل کر دی گئیں۔ اس کی وجہ سے مطاف میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا۔ زمزم کا پانی متبرک ہے۔ زمزم کاکنواں مسجد الحرام میں واقع ہے۔

لاکھوں حاجی حج کے موقع پر عمرہ کرنیوالے عمرہ کے موقع پر اور زائرین زیارت کے موقع پر زمزم پیتے اور اپنے ساتھ دنیا کے گوشہ گوشہ میں تبرک کے طور پر لے جاتے ہیں۔ زمزم پلانے والوں کو "زمازمہ" کہتے ہیں۔ اسلام سے قبل حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت حضرت عباس ؓ انجام دیا کرتے تھے چنانچہ حوض انہی کے نام پر سبیل پر قائم ہے۔ زمزم پلانے والے کو (زمزمی) او رپلانے والوں کو " زمازمہ" کہا جاتاہے۔ سعودی حکومت نے مکہ مکرمہ میں زمازمہ کا ادارہ قائم کردیا ہے۔ قدیم زمانہ میں زمازمہ کے سربراہ کا انتخاب ہوتاتھا۔ اسے شیخ الزمازمہ کہا جاتا تھا۔ شیخ الزمازمہ منتظم مقرر کرتا، اسے نقیب الزمازمہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

الزمازمہ کا ادارہ 10افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کا تقرر انتخاب سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ شیخ الزمازمہ کے معاون و مددگار ہوا کرتے تھے۔ شیخ الزمازمہ زمزم کے کنوئیں پر پانی نکالنے والوں کے شیخ کا تقرر کرتا تھا۔ اسے شیخ السقاۃ کہا جاتا تھا۔ شیخ الزمازمہ کو اس کنبہ کا بزرگ تصور کیا جاتاتھا۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کرتے اور ایک دوسرے کے احوال و کوائف دریافت کرتے اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں تعاون پیش کرتے تھے۔ شادی بیاہ، عیدین اور مختلف سماجی خوشیوں میں جمع ہوتے اور شیخ الزمازمہ جھگڑے بھی طے کیا کرتا تھا۔ ماضی میں حاجی دو طرح کے شمار کئے جاتے تھے۔ ایک تو حجاج التقاریر کہلاتے اور دوسرے حجاج السؤال کے نام سے مشہور تھے۔ حجاج التقاریر سے انکی زمزمی کے بارے میں نہیں پوچھا جاتاتھا کہ وہ کس زمزمی کے ماتحت ہیں بلکہ ان سے پوچھا جاتا کہ وہ کس علاقہ کے ہیں۔ حجاج السؤال سے دریافت کیا جاتا کہ وہ کس زمزمی کے ماتحت ہیں۔ حجاج السؤال جواب میں کسی زمزمی کا نام نہ بتاتے تو ان کا نام فہرست میں درج کرلیا جاتا اور ان کے لئے معمولی درجہ کے زمزمی پلانے والے مقرر کردیئے جاتے۔ حج کا موقع شروع ہوتا تو نقیب الزمازمہ زمزم کے کنوئیں کے پاس بوریہ بچھاتا اور طواف کرکے نکلنے والے حاجیوں سے دریافت کرتا کہ وہ کس زمزمی کے ماتحت ہیں۔ اگر انکا زمزمی موجود ہوتا تو وہ آب زمزم پینے کی مسنون دعا پڑھتا اور حاجی اس دعا کو دہراتے۔ نقیب پلانے کے بعد دعا کراتا تھا اور پھر ان کے زمزمی کو متعین کرکے آب زمزم ان حاجیوں کی قیام گاہوں پر بھجوا دیا کرتا تھا۔ ہر زمزمی کیلئے حرم شریف میں ایک کمرہ سا ہوتا جہاں وہ اپنے برتن رکھا کرتے تھے۔ گھڑے، مٹکے ہوتے تھے۔ کمبل، چٹائی اور پیتل کے کٹورے ہوتے تھے۔

جن پر قرآنی آیات منقش ہوتی تھیں۔ زمزم سقے لایا کرتے تھے۔ زمزم کے کنوئیں سے مشک کے ذریعے زمزمی کے کمرہ پر پہنچایا کرتے تھے۔ یہ کام حج کے وقت فجر کی نماز کے بعد انجام دیا جاتا تھا، پانی ڈول سے نکالاجاتا تھا۔ مسجد الحرام میں ہر زمزمی کی ایک جگہ مخصوص تھی جہاں وہ فرش بچھاکر بیٹھتا تھا اور اس کے بچے حاجیوں کو مخصوص قسم کے کٹوروں میں زمزم پیش کیا کرتے تھے۔ ہر زمزمی کٹورہ پہ اپنا نشان لگایا کرتا تھا کہ اس کے کٹورے دوسرے زمزمی کے کٹورے سے جدا رہیں۔ زمزمی صراحیاں بھی رکھا کرتے تھے جن سے حاجی ، زائرین اور معتمرین زمزم پیا کرتے تھے ۔ صراحی پر کپڑا پڑا رہتا تھا۔ زمزم کا پانی حاجیوں کو ان کی قیام گاہ پر بھی پہنچایا جاتا تھا۔ حاجیوں کو ایک صراحی روزانہ پیش کی جاتی تھی ۔ پورے حج موسم میں یہ سلسلہ چلتا تھا۔ رمضان المبارک میںبھی زمازمہ کا کام بڑھ جاتا تھا۔ زمزمی ، فجر بعد سے تیاریاں شروع کردیتے تھے۔

صراحی رشتے داروں اور دوستوں نیز معلمین کے لئے تیار کیا کرتے تھے۔

زمزمی غسل کعبہ میں بھی حصہ لیا کرتے تھے یعنی جہاں ملک کا فرمانروا اور متوالیان کعبہ، (اغوات) اور خدام خانہ کعبہ کو غسل دیا کرتے تھے ۔ زمزمی بھی ان کے ساتھ 18 شعبان اور 7 ذی الحجہ کو صحن کعبہ میں شامل ہوا کرتے تھے۔ زمزم کے ادارے کو عربی میں مکتب الزمازمہ الموحد (زمزم یونائیٹڈ آفس) کہا جاتا ہے۔ زمزم یونائیٹڈ آفس سرکاری، دینی، قومی تقریبات میں آب زمزم پیش کرتا ہے۔ ان تقریبات میں قرآن کریم کے حفظ، تلاوت ، تجوید اور تفسیر کا شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی مقابلہ ، سعودی ثقافت اور ورثے کو اجاگر کرنے والا جنادریہ قومی میلہ، حج آگہی کے ورکشاپس اور سرکاری تقریبات قابل ذکر ہیں۔ یونائیٹڈ ایجنٹس آفس حجاج کی خدمت پر مامور ادارہ ہے۔ یہ تقریباً 25لاکھ حاجیوں کی خدمت کرتا ہے۔ باہر سے آنے والے عازمین کو انکی رہائش پر زمزم پہنچانا ، ہر روز ہر حاجی کے حوالے سے زمز م کا کوٹہ حاجیوں کی عمارت تک لیجانا ، اسی طرح مکہ مکرمہ سے باہر استقبالیہ مراکز میں عازمین کو آب زمزم پیش کرنا ، حج کے بعد ضیوف الرحمن کی وطن واپسی کے وقت زمزم کا تحفہ دینا اسی ادارے کے فرائض میں شامل ہے۔ اسکا بجٹ 6کروڑ ریال سے زیادہ کا ہے۔ یہ ادارہ 16محرم 1402ھ کو ایوان شاہی کے فرمان پر قائم ہوا۔ زمزم یونائیٹڈ آفس کے اہلکار ہر حاجی کو ڈیڑھ لیٹر والی پانی کی بوتل پیش کرتے ہیں۔ آب زمزم کی بوتلیں ایک سعودی کارخانے میں تیار کی جاتی ہیں۔ آب زمزم کی یہ بوتلیں ISO9002 کی سرٹیفکیٹ یافتہ ہیں۔ زمزم یونائیٹڈ آفس کے اہلکار حاجیوں کو بسوں سے اترتے وقت یہ بوتلیں فراہم کرتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ شاہراہ پر حاجیوں کی قافلہ سازی کے مراکز میں قطار درقطار آب زمزم کے کولر نصب کرا رکھے ہیں۔ اسی طرح مکہ مکرمہ، جدہ شاہراہ پر حاجیو ںکی قافلہ سازی کے مرکز میں آب زمزم کا انتظام کیا گیا ہے۔ 30سے زیادہ کولر پورے مرکز میں جگہ جگہ رکھے گئے ہیں۔ کولرز کے ساتھ پلاسٹک کے گلاس بھی کثیر تعداد میں رکھے جاتے ہیں۔ گلاس پر ادارہ زمزم کی علامت بھی نمایاں طور پر بنی ہوتی ہے۔ زمز م کے کولرز کو کاربن فلٹر اور بالائے بنفشعی شعاعوں سے گزار کر صاف کیا جاتا ہے۔ زمزم یونائیٹڈ آفس سارا کام خودکار مشینوں سے انجام دیتا ہے۔ زمزم میں ہاتھ ڈالنے اور لگانے کی اجازت نہیں ہو تی۔ ٹنکیوں اور آب زمزم کے درمیان کیمیائی تغیرات کے سدباب کا بھی خصوصی بندوبست ہے ۔ ٹنکیوں میں جراثیم کش نظام کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔

ان ساری احتیاطی تدابیر کا مقصد ضیوف الرحمن کی صحت کی حفاظت ہے۔ خانہ کعبہ کا طواف مکمل کرنے ، صفا و مروہ کی سعی شروع کرنے اور عمرہ و طواف مکمل کرنے پر آب زمزم پینا سنت ہے۔ (1) بیٹھ کر پیا جائے۔ (2) پانی کے برتن کو داہنے ہاتھ میں رکھا جائے۔ (3) برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ (4) بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں خوب سیر ہوکر پیا جائے۔ (5) زمزم پینے وقت اپنے لئے اور دوسروں کیلئے دعا کا اہتمام کیا جائے کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔ عوام میں زمزم کے حوالے سے کئی غلط باتیں رائج ہیں۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آب زمزم پینا، حج اور عمرہ کا لازمی جز وہے ، ایسا ہرگز نہیں۔ زمزم کسی بھی وقت مستحب ہے۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد الحرام سے زمزم باہر جانے پر اس کی خصوصیات ختم ہو جاتی ہیں ، یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔

بعض لوگوں کی سوچ ہے کہ آب زمزم سے کفن دھونا مستحب ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آب زمزم سے نہانا وغیرہ حرام ہے، یہ سوچ بھی صحیح نہیں ۔ بعض حاجی زمزم لیتے وقت گرا دیتے ہیں ۔ اس سے پھسلن ہو جاتی ہے ۔ زائرین پھسل سکتے ہیں۔ آب زمزم کی حفاظت کیجئے، اسے ضائع نہ کیجئے، آپ واٹر کولرز کے پاس جتنا چاہیں زمزم پئیں ، ادھر اُدھر نہ جائیں ایسا کرنے سے زمزم گر جاتا ہے۔ آب زمزم کی حفاظت ہر مسلم مرد و خاتون کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ اپنے رشتہ داروں اور اپنے احباب کے لئے آب زمزم کا تحفہ لیکر جارہے ہیں تو ایسی صورت میں اس بات کا بیحد دھیان رکھیں کہ آب زمزم جس کین میں لیجارہے ہوں وہ صاف ستھرا ہو۔

گرم پانی سے اسے دھلوالیا جائے۔ دھوپ میں رکھنے سے اجتناب کیا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پلاسٹک کے کین میں پانی محفوظ ہو اور اسے دھوپ میں رکھ دیا جائے تو ایسی صورت میں کین کے جھلس جانے اور دھوپ کے باعث پانی متاثر ہو نے کا خدشہ ہے۔ اگر آپ نے ایسا پانی آب زمزم کہہ کر کسی کو پیش کیا اور آپ کی غفلت کے باعث کوئی مسئلہ ہوگیا تو ایسی صورت میں زمزم کے حوالے سے غلط فہمیاں جنم لیں گی اور اسکے ذمہ دار آپ ہونگے لہذا آپ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے زمزم کی بدنامی ہوتی ہو جس سے محبوب آقا محمد مصطفی کے اس ارشاد کے بارے میں کہ : ’’زمزم غذا بھی ہے اور دوا بھی‘‘۔ شکوک و شبہات ذہنوں میں جنم لینے لگیں۔ جو انسان نبی کریم سے محبت کرتا ہے وہ کبھی بھی ایسا کام نہیں کریگا جس سے رسول کریم کی بات پر حرف آتا ہو۔

شیئر: