Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب تو کالی پٹی باندھنا بھی غنیمت لگتا ہے

 
آج پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جتنے صحافی کام کررہے ہیں اُن میں سے80 فیصد وہ ہیں جو گزشتہ10 سے15 برس کے دوران اس پیشے سے وابستہ ہوئے
 
وسعت اللہ خان
 
صحافیوں کے تحفط کےلئے کام کرنے والی ایک سرکردہ عالمی تنظیم سی پی جے ( کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ) کے مرتب اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 5 برس میں کم ازکم15 پاکستانی صحافیوں اور لکھاریوں کو جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا۔تنظیم کے مطابق پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور مذہبی ، سیاسی و نسلی نان اسٹیٹ ایکٹرز سے صحافیوں کو یکساں خطرہ ہے چنانچہ اس کا براہِ راست اثر اطلاعات تک رسائی کے بنیادی حق پر پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں لکھنے اور بولنے کی آزادی کے مسلسل سکڑاو میں صحافیوں اور ان کے اپنے اداروں کا کیا کردار ہے اور اگر اس کےخلاف مزاحمت ہو بھی رہی ہے تو کہاں اور کس پیمانے پر ؟ یہ وہ بحث ہے جس میں پڑنے سے صحافیوں کی دلچسپی روز بروز کم ہورہی ہے اور آسان راستہ یہ نکالا جارہا ہے کہ اپنے مصائب کے تدارک کا سوچنے کے بجائے الزام دوسروں پے منڈھ کے سمجھ لیا جائے کہ فرض پورا ہوگیا۔
آج پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جتنے بھی صحافی کام کررہے ہیں اُن میں سے80 فیصد وہ ہیں جو گزشتہ10 سے15 برس کے دوران اس پیشے سے وابستہ ہوئے۔اسی عرصے میں بے لگام کارپوریٹ اور کمرشل مفادات نے ادارتی مفادات کو بے دردی سے پیچھے دھکیلالہذا صحافیوں کی بیشتر نئی نسل اس صحافتی کلچر سے ناواقف یا بیگانہ ہے جس میں پروفیشنل ازم کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت آئیڈیل ازم بھی شامل تھا۔چونکہ اس نسل نے با اختیار ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر دیکھا ہی نہیں لہذا اسے یہ جاننے سے بھی دلچسپی نہیں کہ کسی زمانے میں اس خبری جنگل میں ایڈیٹوریل گائیڈ لائن نامی کسی پرندے کا بھی بسیرا ہوا کرتا تھا جسے جدید عالیشان میڈیائی عمارت نے بے گھر کردیا اور اب بیشتر کام دھاڑی وار ادارتی پالیسی کے تحت مالکانہ افسر لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ان کے عہدے اور پیکیجز سن کے یوں لگتا ہے جیسے کوئی میڈیائی ادارہ نہ ہو کوئی بینک ، کارپوریشن یا فارماسوٹیکل کمپنی یا فائیو سٹار این جی او ہو۔
وہ زمانہ لد گیا جب ٹچے سے ٹچا ادارہ بھی خبری اخلاقیات کا تھوڑا بہت پابند ہوتا تھا اور خبر تب بنتی ، چھپتی یا نشر ہوتی تھی جب یقین ہوجائے کہ رپورٹر نے جن ذرائع سے خبر لی وہ قابلِ بھروسہ ہیں اور تفصیلات پیوندکاری سے پاک ہیں۔ کوئی صحافی اگر راتوں رات بلاجواز خوشحالی میں نہا جاتا تو برادری اس کے بارے میں لاشعوری طور پے محتاط ہو جاتی تھی۔
پر بھلا ہو پچھلے20 برس میں تیزی سے پروان چڑھنے والے ”خود بھی کھاو ہمیں بھی کھلاو “ کلچر کااور خیر ہو گلا کاٹ میڈیائی مسابقت کی کہ جس میں پیشہ ورانہ حلال حرام کا نظریہ عملیت پسندی کا نوالہ بن گیا۔اب تو یوں ہے کہ خبر نہیں بھی ہے تو تخلیق کر لو۔کردار نہیں مل رہا تو خود بنا لو یا بن جاویا فرض کرلو۔پلانٹڈ اور غیر پلانٹڈ کے چکر میں مت پڑو ، ایکسکلوسیو پر دھیان دو تاکہ سینہ ٹھونک کر تم اور میں کہہ سکیں کہ روزنامہ پروانہ آج پھر بازی لے گیا یا یہ نیوز سب سے پہلے دھڑم دھکیل چینل نے بریک کی۔
جب ایک دفعہ بند ٹوٹ جائے یا بقول شخصے جھاکا کھل جائے تو پھر کوئی حد نہیں بچتی۔بقول عزیز حامد مدنی: 
صرف مانع تھی حیا بندِ قبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
کچے مکان کی دیوار کیا گری کہ سیاسی ، سرکاری ، غیر سرکاری ، مشکوک ، غیر مشکوک ہر ایک نے اپنے اپنے رستے بنا لئے۔وہ صحافی جسے کسی زمانے میں خبر کے چکر سے ہی فرصت نہ تھی اب پلاٹوں ، مراعات ، دوروں ، پبلک ریلیشننگ ، فنڈنگ ، چندے ، سودے بازی ، فیورز ، تنظیمی جوڑ توڑ ، ایجنڈا سازی ، منتخب تابع داری اور لابنگ وغیرہ کے چکر میں ایسا پھنسا کہ قلم کا سارا وقار اور دبدبہ دبے پاوں دیوار کود کے لاپتہ ہوگیا۔وہ شاخ ہی نہ رہی جس پے آشیانہ تھا۔
وہ ڈھال ہی ٹوٹ گئی جس کی مدد سے صحافی خود کو اور اپنے پیشے کو بچاتا تھا۔ چلچلاتے حالات نے صحافی اور صحافت کے ساتھ وہی کیا جو ایچ آئی وی جسم کے دفاعی نظام کے ساتھ کرتا ہے،یعنی ڈیفنس میکنزم اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ معمولی سے معمولی وائرس بھی بے دھڑک جان لیوا حملہ کردے۔
یہی صحافی تھے جو اب سے30 برس پہلے تک ایک ادارے اور ایک ساتھی پر حملہ سب پر حملہ تصور کرتے ہوئے ملک گیر مزاحمت پر یقین رکھتے تھے لیکن اب اس دیوار میں اینٹوں سے زیادہ شگاف ہیں۔اب کوئی نہیں کہتا کہ یہ بندہ فلاں اخبار یا نشریاتی ادارے میں کام کرتا ہے بلکہ یہ تعارف کرایا جاتا ہے کہ یہ ہیں جنابِ پنگا بیروی۔بہت باکمال و باعزت صحافی ہیں کیونکہ ان کے رابطے فلاں فلاں خوفناکوں سے ہیںاور یہ ہیں جناب کمرشل اجنالوی جو پیدل آئے تھے مگر دیکھتے ہی دیکھتے ماشاللہ اپنی محنت سے بزورِ قلم 3,2برس میں وہ مقام بنایا کہ آج قصرِ اجنالہ کے مالک ہیں ، فلاناں ریسٹورنٹ بھی انہی کا ہے ، ڈھماکا پرائیویٹ اسکول بھی آپ ہی کے دم سے ہے لہذا حاسدوں سے بچاو کےلئے باوردی گارڈز بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور برسوں ہوگئے جب بھائی کمرشل نے گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا ہو۔فرصت ہی نہیں ملتی پیشہ ورانہ مصروفیات اور خلق خدا اور ناخداوں کی خدمت سے۔
ہاں یہ چیدہ چیدہ مثالیں ہیں مگر ان چیدہ چیدہ مثالوں نے ان ہزاروں صحافیوں اور میڈیائی کارکنوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جنہیں منہ مانگی تنخواہ تو کیا ملے گی منہ دکھائی کے برابر پیسے بھی نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو توڑ توڑ کے ، لیٹ لیٹ کے۔اور پھر ان بجھے چہروں سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ صمیمِ قلب سے پیشہ ورانہ زمہ داریاں روایتی جرا¿ت کے ساتھ نبھائیں اور اپنا اور اپنے ادارے کا نام روشن کریں۔
جب اپنا ہی یہ حال ہوجائے تو پھر کس منہ سے آزادی و غلامی¿ صحافت پر بات ہو یا مزاحمت کے بارے میں سوچا بھی جائے۔کیا یہ غنیمت نہیں کہ ہم آج بھی بازوں پر چند گھنٹے کےلئے سیاہ پٹیاں باندھ کے خود پر علامتی افسردگی طاری کرلیتے ہیں اور پنجرے سے کم ہوجانے والی ایک اور مرغی کی یاد میں60 سیکنڈ کی تعزیتی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں: بڑا افسوس ہوا۔بہت اچھا ساتھی تھا ہمارا۔
******

شیئر: