Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریڈ وارنٹ، اسحاق ڈارکو واپس لایا جاسکے گا؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) سوال بہت اہم ہے، جواب بھی آسان نہیں۔ یہی  ریڈ وارنٹ انٹرپول کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے، جو کہ ہوگیا۔ انٹرپول نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی اس لئے کہ کسی ممبر رکن ملک کے عدالتی فیصلے پر فرار رہنے والے ملزم کو پکڑنا اُس کے فرائض میں شامل ہے۔ مجرم کو اُس کے ملک کے حوالے کرنے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو وہ ملک جو اپنے شہری کی واپسی کا مطالبہ کررہا ہے اُس کے اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبدیلی کا معاہدہ موجود ہے۔ امیگریشن معاملات کی معلومات رکھنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ میں کوئی معاہدہ نہیں ہے اور برطانیہ کا 2033 کا امیگریشن قانون بھی کسی پاکستانی کو اُس کے ملک بھیجنے پر برطانوی حکومت کو پابند نہیں کرتا۔ برطانیہ نے دو ایک مرتبہ تو پاکستان سے اپنے شہری حکومتی درخواست پر واپس بلوالیے تھے، لیکن خود برطانیہ نے پاکستان کی کسی ایسی درخواست کو خاطر میں نہیں لایا۔ ہاں امریکا اور پاکستان کے درمیان ایسا معاہدہ موجود ہے، جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نے ایک سابق نیوی چیف کو ناجائز دولت کمانے پر امر یکہ سے پاکستان واپس بلوانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا ملزم جس پر آمدن سے زیادہ ذرائع رکھنے کا الزام ہے اور جس کے خلاف پاکستان کی عدالت نے گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا ہے، وہ اگر برطانیہ سے درخواست کرے کہ اسحاق ڈار کو پاکستان کے حوالے کردے، تو کیا ایسا ہوگا۔ انٹرپول بین الاقوامی پولیس ہے اگر اُس میں ریڈ وارنٹ پاکستانی کے کہنے پر سابق وزیر خزانہ کے خلاف جاری کرد یئے ہیں تو اُس پر برطانیہ کا کیا ردعمل ہوگا یہ دیکھنا باقی ہے۔ ویسے تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق برطانیہ کو پاکستان کی درخواست مان لینی چاہیے، مگر کچھ وکلا یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو شاید برطانوی عدالت کے ذریعے معاملات اپنے حق میں کرانے کی ضرورت پڑے ایک موہوم سی اُمید برطانیہ برطانیہ کے 2003 کے شہریوں کے تبدیلی کی شق 194 کے تحت پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ جہاں خاص قسم کے کیسز میں برطانیہ اس بات پر تیار ہوسکتا ہے۔ اُس کی شرائط کیا ہوں گی اس کی تفصیل ماہرین کو ہی معلوم ہوگی۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو ریڈ وارنٹ کے باوجود پاکستان نہیں لایا جاسکتا اس لئے کہ اُنہوں نے برطانوی عدالت سے پناہ کا کیس جیتا تھا.... اُن کے بارے میں صرف عدالت ہی فیصلہ کرسکتی ہے۔ برطانیہ میں عدالتی نظام بہت مضبوط ہے۔ دیکھیں پاکستان ہائی کمیشن لندن میں اس معاملے پر کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ویسے عام تاثر یہی ہے کہ اسحاق ڈار کو پاکستان واپس لانے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ نواز شریف اور مریم نواز تو خود ہی پاکستان واپس آگئے تھے۔ اس لئے کہ اُنہیں سیاسی طور پر زندہ رہنا تھا۔ اسحاق ڈار کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ (ن) لیگ کو ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ اُس کے سرکردہ لیڈر اور قومی اسمبلی کے راولپنڈی سے حلقے این اے 60 کے اُمیدوار حنیف عباسی کے بارے میں وکلا یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں ناصرف دوسرے قیدیوں سے علیحدہ رکھا جائے گا، بلکہ اُنہیں سنگین جرم میں ملوث ہونے کی وجہ سے ”بی“ کلاس بھی نہیں دی جاسکتی۔ دوقسم کے مجرمان، خواتین پر تشدد کے ذریعے ظلم کرنے اور ممنوعہ دوا رکھنے پر مجرموں کو بالکل علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ اُنہیں تقریباً 7 سال پہلے نارکوٹکس یا ممنوعہ اشیا کا 500 کلوگرام کا کوٹا الاٹ کیا گیا۔ اُس وقت کے نارکوٹک کے وزیر مخدوم شہاب الدین اور وزارت کے سیکریٹری خوشنود لاشاری نے یہ کوٹا اُن کی دوائیوں کی فیکٹری کے لئے لائسنس کے ذریعے جاری کیا تھا۔ عدالت جس نے اُنہیں عمر قید کی سزا اور10 لاکھ کا جرمانہ، 6 سال کی مہلت کے بعد سنایا یہ بات واضح کردی ہے کہ اُنہوں نے 383 کلوگرام تو دوائیوں کے بنانے میں استعمال کی۔ باقی 137 کلوگرام کے استعمال کے بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک کلوگرام ممنوعہ اشیاءبھی رکھنا سنگین جرم ہے، جس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہوسکتی ہے۔ اس کی اپیل تو ہائی کورٹ میں ہوسکتی ہے اوردو ایک روز میں یقیناً ہوجائے گی۔ چونکہ لاہور ہائی کورٹ کے کہنے پر اس کیس کا فیصلہ21 جولائی تک کیا گیا ہے۔ اس لئے شاید اپیل میں جان باقی نہ رہے۔ بہرحال یہ قانون کے معاملے ہیں۔ عدالتیں ہی فیصلے کا حق رکھتی ہیں۔ 
مزید پڑھیں:نواز شریف کے گردے فیل ہونے کا خدشہ

شیئر: