جسٹس شوکت عزیز نے حد سے تجاوز کیا ؟
کراچی(صلاح الدین حید ر ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ایک بیان نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔ ان کا کہنا کہ آئی ایس آئی نے انہیں انتخابات میں ایک سے زیادہ مرتبہ مداخلت کرنے کےلئے دباو ڈالا جو کہ ملکی قوانین اور انصاف کے اصولوں کے خلاف تھا۔ان کے انکار پر ان پر دباو بڑھتا گیا لیکن وہ نہیں مانے اور کھل کر کہنے پر مجبور ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ اس پر فوج کا رد ّعمل شدید ہی ہونا تھا۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کے ذریعے نا صرف اس کی سختی سے تردید کی بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے شکایت کی کہ اس بات کا نوٹس لیا جائے۔ افواج پاکستان کبھی سویلین معاملات میں مداخلت نہیں کرتیںبلکہ آرمی چیف قمر باجوہ نے تو واشگاف الفاظ میں یقین دہانی کرائی کہ انتخابات میں فوج کسی بھی سیاسی پارٹی یا امیدواروں کی حمایت یا مخالفت کرنے کا کوئی اراد ہ نہیں رکھتی۔ الیکشن کمیشن کے آئین کے تحت احکامات کی سختی سے پابندی کرے گی جس کی تصدیق آج ہوجائے گی جب افواج پاکستان کا ایک وفد الیکشن کمیشن میں عوام الناس کی نگرانی کرنے کے لئے حکومتی اقدامات پر تبادلہ خیالات کرنے پہنچا اور بڑی تفصیل سے تمام امور پر گفتگو کی۔بعد میں اےک اعلانیہ کے ذریعے آرمی نے یہ یقین دہانی کرائی کہ فوج کے دو دو سپاہی پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر موجود رہیں گے تاکہ امن و امان کی صورتحال پر پوری طرح کنٹرول کیا جاسکے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شوکت عزیز کی تقریر پر نوٹس لیتے ہوئے تفصیل طلب کرلی لیکن جسٹس شوکت عزیز جو کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معتمد خاص عرفان صدیقی ،کے بھائی ہیں،نے چیف جسٹس کو تفصیلی خط تحریر کردیا کہ فوج کا کوئی کام نہیں کہ وہ عدالتی امور میں مداخلت کرے۔یاد رہے کہ حکومت عزیز کے خلاف پہلے سے ہی ایک عدالتی کمیشن انکوائری کررہاہے۔ان کے مطالبا ت پر چیف جسٹس نے وعدہ کیا کہ اگر وہ چاہیں تو ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتاہے۔ کچھ ایسی بھی افواہیں گردش کررہی ہیں کہ تعلیمی اداروں سے جو اساتذہ یا دوسرے عملہ انتخابات کے لئے طلب کیا گیا انہیں رینجرز نے اپنی طرف سے ہدایت دینی شروع کردی ہیں۔رینجرز نے اس پر پرزور تردید کرتے ہوئے اسے رینجر کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔