عمران خان مہاجروں کے نئے لیڈر؟
کراچی (صلاح الدین حیدر)عمران خان کی تحریک انصاف نے جہاں بڑے بڑے برج کرائے وہیں اس نے کراچی میں 37سال بعد نئے پی ٹی آئی کلچر کا آغاز کیا ، اور ساتھ ہی میں ایم کیو ایم کا تقریباً خاتمہ کردیا۔ پاک سرزمین پارٹی تو صف ِ ہستی سے ہی مٹ گئی۔ بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہے گئے۔پیپلز پارٹی سندھ میں مزید سکڑ کر رہ گئی ۔الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق ، پیپلز پارٹی جس کی بنیاد 1967میں ذولفقار علی بھٹو نے ڈالی تھی۔بے نظیر کی شہاد ت کے بعد زوال پذیر ہوئی۔ باوجود اس کے وہ ملک کے جنوبی صوبے میں تیسری مرتبہ حکومت بنا رہی ہے ،اس کی مقبولیت میں بھی انتہائی کمی آچکی ہے۔ اس کی ذمہ داری بلا جھجک آصف علی زرداری پر ہی آتی ہے، بیوی کی شہادت کے بعد وہ 2008 میں ہمدردی کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ انتظامی امور کی دیکھ بھال نہ کرسکے۔2013کے انتخابات پی پی پی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے یکدم ہی غائب ہوگئی۔ بے نظیر کے صاحبزادے نے بڑی جہدو جہد کے بعد اسے دوبارہ بھال کرنے کی کوشش تو کی۔ شایدانہیں ابھی کافی وقت درکار ہوگا جہاں وہ اپنے نانا کی میراث کو اس کے اصل مقام تک پہنچا سکیں۔ سندھ میں پانچ سال پہلے پیپلز پارٹی 91نشستیں حاصل کرسکی تھی۔ اس بار صرف یہ تعداد سمٹ کر 72کی نچلی سطح تک آگئی ۔ اسے اپنی مقبولیت کو بحال کرنے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے ورنہ شاید یہ چند نشستوں تک ہی محدود ہو کر رہ جائے۔بلاول بھٹو جو کہ والد کے ساتھ پارٹی کے سربراہ ہیں، نے جماعت کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں صوبے کے وزیر اعلیٰ اور آئندہ کی حکمت عملی پرتفصیلی غور کیا گیا۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ۔ ایم کیو ایم جو 1987سے لے کر آج تک سندھ کے شہری علاقوں کی بے تاج بادشاہ تھی۔ محض 6قومی اسمبلی کی اور 13صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اکتفاءکرنے پرمجبور ہوگئی۔وہ خود ہی اپنی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ آپس میں لڑائی جھگڑے،تقسیم در تقسیم نے اس کے ووٹ بینک کو کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔، الطاف حسین جس کے نام پر لاکھوں کی تعداد میں ووٹ پڑتے تھے سے علیحدگی کے بعد پارٹی کو اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔پاک سر زمین پارٹی مصطفی کمال کی قیادت میں ابھری۔، کئی ایک پرانے پارٹی کے لوگ ٹوٹ کر پی ایس پی میں شامل ہوئے۔ اس سال فروری میں وہ کچھ دیکھنے میں آیا جس کا صدمہ پارٹی کے لوگوں کے لئے ہی نہیںبلکہ کارکنان کے لئے بھی شدید ثابت ہوا۔ 130کے ایوان میں 72بھی سادہ اکثریت میں ہیں، پارٹی کو کسی اور کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ انتخابات سے چند روز پہلے تک پارٹی کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار جنہوں نے اپنے ایک دوست ، کامران ٹیسوری کی خاطر پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا بعدمیں پھر ایک ہوگئے زخم بھرنا مشکل ثابت ہوگیا 25جولائی کے انتخابات میں پارٹی کی اسے بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ پی ٹی آئی نے خلاءپرکرنے میں کمال مہارت سے کام لیا۔ عمران خان نے کراچی میں کئی ایک جلسے کئے ۔ نتیجتاً کراچی کی 21قومی اسمبلی کی نشستوں میں 14پی ٹی آئی نے حاصل کرکے ایم کیو ایم کا برسوں کا سحر چکنا چور کردیا۔ پیپلزپارٹی جو ایم کیو ایم کے جھگڑوں سے بے حد خوش تھی۔کوئی بھی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ اسے صرف 3نشستیں ہی مل سکیں۔ جب کہ ایم کیو ایم کو صرف 4، چور مچائے شور محاورے کے مطابق پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی ، جو با مشکل اپنی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب رہے نے الیکشن کی شفافیت پرشدید تحفظات کا اظہار کیا جب چڑیاں چک گئی کھیت پچھتاوے سے کیا فائدہ۔ پارٹی نے خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ۔دوسروں کو کیا دوش دینا، عمران خان آج مہاجروں کا بھی لیڈ ربن کر ابھرا۔ ایک اندازے کے مطابق مہاجر یا اردو بولنے والوں کے بہت بڑے طبقے نے ایم کیو ایم کی بجائے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے میں عافیت سمجھی ۔وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کراچی کی قومی نشست بحال رکھیں۔لاہور، میانوالی والی اور دوسری دو جگہوں سے جیت گئی نشستیں خالی کر کے اردو دان طبقوں کی نمائندگی کریں تاکہ ان کا کوئی پرسان ِ حال ہوسکے۔ مہاجر طبقہ 22اگست 2016کے بعد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔عمران خان کی صورت میں اسے مسیحا نظر آیا ہے۔ دیکھیں ان کی خواہش کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔