پنجاب میں پانی پت کی چوتھی لڑائی
اتوار 29 جولائی 2018 3:00
کراچی( صلاح الدین حیدر) پنجاب میںلڑی گئی پانی پت کی 3 جنگوں کا ذکر تاریخ کے صفحات میں بار بار آیا ہے۔ یہ کون جانتا تھا کہ صدیوں بعد اسی سرزمین پر ایک جنگ اور بھی لڑی جائے گی۔ فرق صرف ہتھیاروں کے استعمال اور سیاسی جوڑ توڑ کا ہے۔ تحریک انصاف جس نے میدان سیاست میں سیکڑوں مضبوط ترین ستون گرا کے نیا انقلاب برپا کردیا۔ اب ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک اور محاذ جنگ کی تیاری کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ اگر اعداد و شمار پر انحصار کیا جائے تو پنجاب صوبائی اسمبلی کی 297نشستوں کے لئے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 129نشستیں جیتی ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے 123،فرق بہت مختصر سا ہے۔ اگر عمران خان کی پارٹی وفاق میں حکومت بنانے کے لئے تازہ دم نظر آتی ہے تو پنجاب کو وہ کیسے شریفوں کے لئے چھوڑ دے۔ 6 نشستوں کا فرق کوئی بہت بڑا نہیں اور جہاں 25سے زیادہ آزاد اسمبلی کے منتخب نمائندے ہو ں تو کوئی دشواری پیش ہی نہیں آنی چاہےے جہاں شہباز شریف نے اعلی ظرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کی حامی بھرلی ، وہیں ان کے صاحبزادے حمزہ شریف جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پی ٹی آئی کا قومی سطح پر مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ پنجاب میںن لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ ا سے حکومت بنانے کا حق نہیں چھیننے دیں گے۔ بات تو سمجھنے کی ہے کہ وفاقی میں پی ٹی آئی ،ن لیگ سے 50سے زیادہ نشستیں جیت چکی ہے۔ فرق بہت بڑا ہے۔پنجاب میں تو ایسی صورتحال نہیں تر یہاں توصر ف نمبروں کا کھیل ہے ترآج ہی جہانگیر ترین اور علیم خان کی 3 دنوں کی محنت کے بعد 4پنجاب صوبائی اسمبلی کے آزاد منتخب شدہ ایم پی اےز نے عمران خان سے ملاقات کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مزید کچھ اور آزاد ایم پی اےزبھی دو ایک روز میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلےں گے۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ اسے 24آزاد ایم پی ایز کی حمایت حاصل ہے۔ حمزہ شریف بھی 15آزادایم پی اے کی حمایت کے داعی ہیں۔حمزہ شہبازکا دعوی کہ وہ پیپلز پارٹی سے بھی رابطے میں ہیں۔ق لیگ کے چوہدری برداران پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کی بھی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسے کہتے ہیں ہوا ئی فائرنگ یا خلامیں تیر چلانا۔ شروع سے آخر تک پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت پی ٹی آئی کی حمایت سے سیاست کرتے رہے ہیں۔وہ اس الیکشن میں بھی پی ٹی آ ئی کی حمایت سے سرخرو ہوئے ہیں۔ دونوں کےسے حمزہ شہباز کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوںگے۔معتبر مبصر سہیل واڑئچ نے رابطہ کرنے پر اسے محض بھونڈا مذاق قرار دیا۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ چوہدری بردارن پی ٹی آئی کا ساتھ نہیںچھوڑیں گے، وہ عمران خان کے احسان مند ہیں، اگر حمزہ کا یہ دعویٰ کہ نون لیگ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ پرویز الٰہی کو یہ منصب دےدے گی تو بھی ایسا ممکن نہیں ۔ جس طرح قومی سطح پر 270کے ایوان میں 136کی تعداد سادہ اکثریت کے لئے کافی ہے۔اسی طرح پنجاب میں 297کی تعداد کا نصف 150کی تعداد حاصل کرنا عمران کے لئے کوئی مشکل بات نہیں ہوگی۔آزاد ایم پی اے،یا ایم این اے اکثرو بیشتر حکومتی پارٹی کے ساتھ دیتے ہیں تاکہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام ہوتےرہےں،وہ کیسے بھلا ن لیگ کے ساتھ جائیں گے۔ اس لئے یہ بات قابل قبول نہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری اور نعیم الحق پر اعتماد ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کا جلد اعلان کر دیا جائے گا۔ سندھ اےک واحد صوبہ ہے جہاںں پیپلزپارٹی تیسری مرتبہ حکومت بنائے گی لیکن وہاں بھی پی ٹی آئی اپنا گورنر دو ایک روز میں لے آئے گی۔موجود ہ گورنر محمدزبیر نے اپنا سامان باندھنا شروع کردیا ۔سندھ کے سابق گورنر اور معمر سیاست دان ممتاز بھٹو کا نام نئے گورنر کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ جب تک سرکاری طور پر اعلان نہ کردیا جائے کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ پیپلز پارٹی بھی شریف بردارن کے ساتھ نہیں جائے گی۔ دونوں میں بہت اختلاف ہے۔