اپنے ہی لوگ راستے کا پتھر کیوں؟
اتوار 29 جولائی 2018 3:00
کراچی( صلاح الدین حیدر ) ابھی حکومت بنی بھی نہیں کہ سازشوں کے تانے بانے بننے شروع ہوگئے، یہ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ قائداعظم کے زمانے سے ایسا ہی ہوتا رہا۔سیاست دان جمہوریت کے لبادے اوڑھ کر عوام کو بے وقوف بنانے میں ملکہ حاصل کرچکے ہیں۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔لیاقت علی خان کو شہید کرکے اس وقت کی بیوروکریسی جس میں غلام محمد ،اور مشتاق احمد گرمانی سرفہرست تھے نے ملکی استحکام پر ضرب لگانی شروع کردی ےہ کھیل آج تک جاری ہے۔ عمران خان نے جس عظیم جدوجہد کے بعد ملک میں نئے انقلاب کی بنیاد ڈالی، اس کے خلاف، افسوس سے کہنا پڑ رہاہے۔ سیاستدانوں نے کھلا محاذ بنا لیا۔آج بھی انتخابات میں دھاندلی کا سہارا لے کر ان میں سے بہت سارے اکٹھے ہوگئے ۔ نئے الیکشن کا مطالبہ شروع کردیا۔ ان میں چند ایسے حضرات بھی شامل ہیں جن کے آباﺅ اجداد جمہوریت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور قربانیاں بھی دیں۔ محمود خان اچکزئی کے والد مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی ایک قد آور شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودا نہیں کیا۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے پورے خاندان کو حکومت اور پارلیمان میں سمودیا تھا۔ مولانا مفتی محمود زبردست عالم دین تھے، وہ 1970میں مولانا شاہ نورانی کے ساتھ قومی اسمبلی کے ممبر بنے، صرف اس بات پر وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دےدیا کہ بلوچستان میں عطا اللہ مینگل حکومت کومعزول کردیا گیا تھا۔انصاف کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی پر ۔مولانا مفتی محمود جو جے یو آئی کے سربراہ تھے، کے پی کے جو کہ اس وقت شمال مغربی صوبہ کہلاتا تھا سے احتجاجاً مستعفی ہوگئے، یہ ہیں اصول اور اس کی حفاظت جبکہ ان کے صاحبز ادے کے دامن پر داغ لگے ہیں۔ کاش ان کو خیال ہوتا کہ جمہوریت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے نہ کریں۔ پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے۔اس وقت قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ فضل الرحمن ، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، شاہد خاقان عباسی ، نے مل کر نتائج کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کردیاہے۔کیا ےہ وقت اپنے تمام اختلافات بھلا کر قومی یکسوئی اور اتحاد کا نہیں؟ کیایہ سڑکوں پر مظاہرے کر کے ملکی تقدیر بدلنے یا عوام کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کا وقت ہے۔ کیا کریں کہ ہمارے قائدین کو اپنی ضرورتوں کو قومی سلامتی پر ترجیح دینے کا فرق بھی سمجھ نہیں آتا۔ اللہ بھلا کرے پیپلز پارٹی، اور ایم کیو ایم کا جنہوںنے فضل الرحمن کی دعوت پر آل پارٹی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو بھی بے اختیار داد دینے کا جی چاہتا ہے جنہوںنے پارلیمان میں حلف وفاداری نہ اٹھانے کے فیصلے کو نہیں مانا اور دونوں ہی نے پارلیمنٹ کے اندر رہ کر اپنا مقصد بیان کرنے کو فوقیت دی۔ یہ ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے ۔ایم کیو ایم توخیر جہانگیر ترین کے کہنے پر اے پی سی چھوڑ کر حکومت کی حمایت پر تیار ہوگئی۔عقلمندی کا ثبوت دیا، قربان جائیے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر جنہوں نے ماضی کے سارے اختلاف بھلا کر دشمن کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا۔ عمران اکثر نیلسن منڈیلا کی مثال دیا کرتے تھے۔وقت آنے پر انہوںنے اس کا عملی ثبوت پیش کردیا۔ پیپلز پارٹی ، اور ن لیگ نے فضل الرحمن سے اختلاف کر کے قوم پر احسان ِ عظیم کیا ۔انہیں پارلیمان کا وقار عزیز رکھنے پر مبارک باد دینے کو جی چاہتاہے۔پاکستان کو اس وقت عمران جیسے لیڈر کی ضرورت ہے، دنیا نے اُن کا خیر مقدم کیا ہے۔سعودی سفیر نے اسلام آباد میں ان کے گھر جا کر اپنی حکومت کا خیر سگالی پیغام دیا ۔ امر یکہ،برطانیہ،چین جیسے عظیم مملکتوں نے پاکستانیوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے ہمت و استقلال سے دہشت گردی کو شکست فاش دی۔ پاکستان میں جمہوریت کے عمل کو دوام بخشنے کے لئے پر عزم نظر آئے۔ تو پھر ہمارے اپنے ہی لوگ راستے کا پتھر کیوں بن رہے ہیں۔ شرمندگی کا مقام ہے، پھر اے پی سی میں شرکت کرنےو الوں کا یہ اعلان کہ ہم منتخب پارلیمان کو حلف نہیں اٹھانے دیں گے۔ملک میں خلفشار برپا کرنے کے مترادف ہے۔ہم پاکستانی خداجانے کب سدھریں گے، جو لوگ خود حلف اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ۔ وہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں کیسے پیدا کرسکتے ہیں، ہارے ہوئے لوگ جمہوریت کا قلع قمع کرنے میں پیش پیش ہوں تو اللہ ہی انہیں صحیح راہ دکھا سکتاہے۔