Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جماعت اسلامی کراچی سے کیو ں ہاری؟

کراچی (صلاح الدین حیدر ) جماعت اسلامی جو کہ 1970ءسے کراچی کی سیاست پر بڑی حدتک حاوی تھی،متحدہ قومی موومنٹ سیاسی افق سے تقریباً ختم ہوگئی۔ دوبارہ 2002میں ظاہر ہوئی اور انتخابات میں جب اس جماعت نے 5قومی اسمبلی کی اور صوبائی اسمبلی کی 7نشستیں جیتیں تو اُمید قوی تھی کہ ایم کیو ایم کی بربادی کے بعد جماعت اسلامی پھر سے خود کو زندہ کرپائے گی ایسا نا ہوسکا۔ اگروفاقی سطح پر پارٹی کے امیر سراج الحق کو دیر سے شکست ِ ہوئی توکراچی جہاں سے پروفیسر غفور احمد، اور محمود اعظم فاروقی جیسے زیرک سیاست دان ہمیشہ بازی سمیٹ لیا کرتے تھے۔ان کی رحلت کے بعد اس جماعت کا تقریبا ًخاتمہ ہوگیا۔ 25جولائی کے الیکشن میں جماعت اسلامی صرف صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہی اپنے نام کرسکی۔ اس جماعت کے پرانے ورکر سید عبدالرشید ہی لیاری سے پی ایس 108کی سیٹ جیت سکے۔ باقی تمام سرکردہ لیڈران جن میں سندھ کے امیر اسد اللہ بھٹو ،سابق پارلیمنٹیرین محمد حسین محنتی ، کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن ، محمدلئیق خان ، معراج الہدیٰ صدیقی ،سب ہی ناکام رہے۔ گو کہ جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کی 5 پارٹیوں میں سے دوسری سب سے اہم جماعت ہے، اس نے 21قومی اسمبلی کی ، 22صوبائی اسمبلی کی سیٹیوں سے امید وار نامزد کئے تھے۔ جماعت کو یقین تھا کہ کراچی والے اس کی حمایت کریں گے لیکن ان کے تمام خواب چکنا چو ر ہوگئے۔ غور سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی نے بھرپور مہم چلائی تھی۔ کراچی کے بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ، قومی شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا کے مزید مراکز کھولنے کا مطالبہ، پانی کی کمی ، یونیورسٹی کی فیسوں میں بے شمار اضافہ، سب ایسے معاملات تھے جن پر کراچی کے لوگ اکثر اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔جماعت نے ان تمام مسائل کو بھرپو ر طریقے سے اٹھایا شاید کامیابی شاید مقدر میں نہیں تھی ۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ جماعت اسلامی دیگر جماعتوں کی طرح صرف نعرے بازی سے کام نہیں لیتی تھی، میدان عمل میں بھی اس کا کام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی زیادہ تر حمایت اردو بولنے والوں میں تھی 1987میں ایم کیو ایم کا ظہور پذیر ہونا اس کےلئے سم قاتل ثابت ہوا۔ پھر بھی جماعت نے ہمت نہیں ہاری اور 2002میں تسلی بخش نتائج حاصل کئے۔ بعدمیں اردو بولنے والوں نے، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ اور افرا تفری سے گھبرا کر پاکستان تحریک انصاف کی طرف پلٹا کھایا جس کا نتیجہ ہمیں 25جولائی کو نظر آیا۔ پی ٹی آئی برخلاف توقع 21قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے بھاری اکثریت یعنی 14نشستیں اور صوبائی اسمبلی میں 23نشستیں جیت کر دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ نتائج یہ بات پھر ظاہر کرتے ہیں کہ صرف نعرے لگانے یا باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، لوگ معیشت کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں کہ ان کے روز مرہ کے مسائل کون حل کرے گا۔ پی ٹی آئی نے ان مسائل کا حل پیش کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس سے پہلے بھی 1993میں ڈیفنس کلفٹن کی نشست پر اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، ن لیگ کے حلیم صدیقی سے شکست کھا چکے تھے۔ ان کے بعد پارٹی کے سربراہ منور حسن نے ایسا طرز عمل اپنایا اورجماعت کی پوزیشن کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔ ہند ہو ، بنگلہ دیش یا پاکستان ہر جگہ اس کا یہی حال ہے۔ 
 

شیئر: