عمران نے منزل کی نشاندہی کردی
کراچی (صلاح الدین حیدر)عمران خان نے اپنی اور حلیف جماعتوں سے وزیر اعظم کی نامزدگی کئے جانے کے بعد بغیر ایک لمحہ ضائع کئے قوم کو اس کی منزل کی نشاندہی کردی ۔ کفایت شعاری ،عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنا، نام و نمود ، نماش وغیرہ ،کچھ نہیں ناخوداُن کے لئے ناہی اپنے وزارءکے لئے سب کو ایک مثال بننا ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر جلد سے جلد گامزن ہوسکے۔ ایسا پاکستان میں قائد اعظم اور قائد ملت کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ عمران کی تقریر نے پاکستانی عوام کو صرف امید ہی نہیں، نیا حوصلہ ، نیا ولولہ دیا ہے کہ آگے بڑھو ، محنت کرو اور پاکستان کو دوبارہ دنیا کی نظروں میں اس کا وہی مقام دلادو جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ جس کی تکمیل قائد اعظم نے عمل پیہم سے کی ۔ سادگی اختیار کرو، فضول نمودونمائش کو یکسر چھوڑ دو ۔ کام ، کام اور کام بس کام۔
نگاہ بلند سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
اسی پر اکتفا نہیں کیا، اقبال کا مشہور شعر ہے
سبق پھر پڑھ ،صداقت کا ،عدالت کا ،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
کرکٹ کے میدان کے ایک ایسے ہیرو ، جس نے پاکستان کو عالمی کپ جیتاکر شہرت ِ آفاقی سے ہمکنار کیا۔ آج پاکستان کو سنبھالنے کا مشکل ترین کام اپنے کاندھوں پر لئے، پر عزم اور اعلی ہمتی سے اس بلندی کی طرف لے جانے کے لئے پہلے دن سے ہی مصروف عمل نظر آتے ہیں۔انتخاب جیتنے کے بعد ان کی پہلی تقریر کی دنیا بھر میں ستائش کی گئی۔روس، چین، انگلستان ، ہندوستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران،ترکی ،جاپان ، اور کسی حد تک امر یکہ نے بھی اسے کامیابی کی دلیل قرار دیا اور آج جب کہ اس نے اپنا لائحہ عمل پارٹی کے سامنے پیش کیا کہ سادگی اختیار کرو، کام کرو، قوم وملت کی خدمت میں کوئی کثر نا اٹھا رکھو،اپنے عیش و آرام کو بھول جاو تو پارٹی کے لوگوں کو بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ ان کے قدم کس سمت میں اٹھنے ہیں بقول فواد چوہدری کے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ، کانٹوں کا بستر ہے۔ بس عمران نے بتا دیا اپنے ساتھیوں کو منزل کٹھن ہے۔
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔
قدرت بھی اس کی حامی نظر آتی ہے۔پاکستان تمام بڑی ، چھوٹی سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف محاذ بنا لیا۔کوئی کہتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت چلنے والی نہیں۔تھوڑی بہت سیاسی بصیرت رکھنے والے اسے صرف 6ماہ کی مدت دینے میں بھی کفایت سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حسد رکھنے والے خود اپنے اعمال پر نظر ڈالنے سے یا تو قاصر ہیں یا جان بوجھ کر گریبان میں جھانکنے سے ڈرتے ہیں سب ہی نے مظاہروں کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔انتخابی نتائج کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے پر مصر ہیں اگر ذرا ہمت سے کام
لیں تو ان پر خود ہی ظاہر ہوجائے گا کہ یہ ساری پارٹیاں خود پسندی اورتضاد کا شکار ہیں۔د وسروں سے مقابلے کے لئے یکجہتی ، اعلی ہمتی ، اور باہم رضا مندی درکار ہوتی ہے۔ دیکھنے میں تو کچھ اور ہی نظر آرہاہے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑھتے ہوئے اختلاف۔فضل رحمان، کا احتجاجی سیاست پر زور، سب کچھ اپوزیشن کے حق میں نہیں ۔
ایک طرف تو راولپنڈی میںن لیگ شہباز شریف سے ناراض نظر آتی ہے کہ چوہدری نثار کو کیوں الگ ہونے پر مجبور کیا گیا۔دوسری طرف اس سے بھی زیادہ خیبر پختونخواکے گورنر اقبال ظفر جھگڑا جون لیگ کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے گورنر سے مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا۔پارٹی کی قیات کی عزت کیا رہ گئی۔ عمران شاید 14یا 15اگست کو حلف وفاداری اٹھائیں گے۔ اس کے بعد امید تو یہی ہے کہ پاکستان نئی منزل کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے گا۔