Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی نوجوان السدیس، عالمی کمپنیوں کی توجہ کا مرکز بن گیا

 

عالمی معیاری کمپنیاں اسے اعلی درجے کی گھڑیا ںاور ملبوسات پیش کرکے اس کا شکریہ ادا کر رہی ہیں

فضائی کمپنیاں ، ہوٹل، بڑے ریستوران اس کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لئے بے چین ہیں

اب تک 45ممالک کے سیر کرچکا ہے، ریاض کا شہری ہونے باوجود اپنے شہر میں سال میں 30دن بھی نہیں رہتا

کام کا دائرہ اتنا پھیل چکا ہے کہ 3منیجر رکھنے پڑ رہے ہیں

 

سوشل میڈیا کے ہیرو یوسف السدیس جاذب نظر شخصیت ہونے کے باعث دنیا بھر کی اعلی درجے کی کمپنیوں ، ہوٹلوں ، ریستورانوں، سیاحتی مراکز اور فضائی کمپنیوں کی توجہات کا محور بن گیا۔السدیس اب تک 45ممالک کی سیر کر چکا ہے۔

سعودی دار الحکومت ریاض کا شہری ہونے کے باوجوداپنے شہرمیں سال میں 30دن بھی نہیں رہ پاتا۔ فضائی کمپنیاں ، ہوٹل، بڑے بڑے ریستوران اس کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں جبکہ عالمی معیاری کمپنیاں اسے اعلی درجے کی گھڑیا ںاور ملبوسات پیش کرکے اس کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔یوسف السدیس کے کام کاج کا دائرہ کافی پھیل چکا ہے اس وجہ سے اس نے اپنے معاملات کو منظم کرنے کے لئے 3منیجر تعینات کر رکھے ہیں۔ سبق ویب سائٹ نے السدیس اس کی دلچسپیوں، سرگرمیوں اور پسند ناپسند اور سفر اسفار کی بابت مفصل انٹر ویو سائٹ پر جاری کیا ہے۔

السدیس کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں میرا پیشہ روشنی کا پیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑا صبر آزما عمل ہے۔ کیمرے کے سامنے اس انداز میں آتے رہنا کہ ناظرین کو اچھا لگوں ، پر کشش نظرآؤں اور کچھ نیا پن ان کے سامنے رکھوں، بہت زیادہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ السدیس نے بتایا کہ میرا مشن بیرونی دنیا میں سعودی عرب کے متعلق اقوام عالم کے غلط تصور کی اصلاح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مملکت سے متعلق اقوام عالم کی سوچ تبدیل ہو۔

میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ سعودی عرب کی سیر کرنا چاہتے ہیں مگر سیاحتی ویزے کا حصول ان کے خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رمضان المبارک کا مہینہ اثر انداز کا شخصیتوں کا موسم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زیادہ سعودی اور خلیجی ماہ رمضان میں سفر نہیں کرتے بلکہ عید کے بعد سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں فضائی کمپنیوں ، ہوٹلوں اور سرپرست اداروں کے ہاں یہی اصل سیزن ہے۔انہوں نے بتایا کہ میرا پیشہ دنیا بھر کی سیر ہے۔ سیاحتی مقامات پر جاکر ان کی عکس بندی ، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے پروگراموں میں شرکت اور پھر یہ سب کچھ اسنیب چیٹ، ٹویٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک پر جاری کرنا ہے۔ دسیوں ہزار لوگ یہ سب کچھ دیکھ اپنے تجزیہ بھیجتے ہیں۔ جو ادارہ مجھے سفر کراتا ہے وہی سفر ، قیام وطعام کے اخراجات برداشت کرتا ہے، مالی معاوضہ پیش کرتا ہے۔ میں نے انڈونیشی محکمہ سیاحت کی فرمائش پر انڈونیشیا کا سفر کیا۔ اس محکمے کا ہدف یہ تھا کہ میں سعودی سیاحوں کے ہاں انڈونیشیا سے متعلق سفر کے منفی تاثرات کو درست کروں۔ انہوں نے بتایا کہ میں طویل ترین سفر شمالی ومغربی یورپ کیا۔ 3ماہ تک جاری رہا۔

کئی فضائی کمپیوں اور ہوٹلوں نے اسپانسر کیا۔ سب سے مختصر سفر دبئی کا تھا۔ چند گھنٹوں پر مشتمل رہا۔ وہاں ایک ہوٹل کی منظر کشی سفر کا ہدف تھا۔ اپنی زندگی کا سب سے مشکل سفر کیوبا ، پانامہ ، کوسٹاریکا اور میکسیسکوکا سفر مانتا ہوں۔ سعودی اور خلیجی سیاح ان مقامات سے ناآشنا ہیں۔ کیوبا بڑا مختلف ملک ہے۔ میں اپنی زندگی میں ایسا ملک نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک عصر حاضر سے نابلند ہے۔وہاں نہ صرف یہ کہ قدیم گاڑیاں اور مخدوش عمارتیں نظر آتی ہیں بلکہ عصر حاضر کی سہولتیں ، مثلا کوپن انٹر نیٹ، اے ٹی ایم کے حوالے سے بھی بڑے مسائل ہیں۔ اپنی زندگی کا پر خطر سفر میکسیکو کے سفر کو مانتا ہوں۔ ہوٹل کے کارکنان نے مجھے میکسیکو سٹی کے کئی محلوں سے جانے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ بڑے پر خطر ہیں۔

یوسف السدیس نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ حرم شریف کے امام وخطیب شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس سے ہماری رشتہ داری ہے۔ وہ میری سرگرمیوں سے واقف ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنا مشن جاری رکھنے کی ہدایت کی ہوئی ہے تاہم سفر اور سیر وسیاحت کی میری ساری سرگرمیاں میری اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا خاندان یا شیخ السدیس سے کوئی تعلق نہیں۔ یوسف السدیس نے کہا کہ میں کیمرہ استعمال نہیں کرتا۔ میری ساری تصاویر موبائل سے لی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین ایسا ملک ہے جس کی سیر کرچکا ہوں اور آئندہ کبھی چین جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ چینی پردیسیوں سے میل ملاپ کی تہذیب سے واقف ہی نہیں۔یہ لوگ مسکرانا نہیں جانتے۔انہوں کہا کہ امریکی عوام تہذیب وشائستگی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے لوگ سادہ طبیعت کے مالک اور پردیسیوں کو پسند کرتے ہیں۔ میں جب بھی ان کے ساتھ سیلفی بناتا تو وہ میرے عقب میں کھڑے ہوجاتے ، مسکراتے اور دوست ہونے والے کا تاثر دیتے اور ہنساوالی حرکتیں کیا کرتے۔ جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاؤن میرا پسندیدہ ترین شہر ہے۔ یہ ساحل سمندر پر واقع ہے۔ یہاں سب کچھ ملتا ہے۔

حسین مناظر، بلند وبالا پہاڑیاں ، انواع واقسام کے بازار ، جدید طرز کی فلک بوس عمارتیں ، سب کچھ دل موہ لینے والی ہیں۔ کئی بار جاچکا ہوں اور بار بار جانا چاہتا ہوں۔ انسانیت نواز ناقابل فراموش واقعہ کی بابت سوال کے جواب میں السدیس نے کہا کہ میں ایک دن لندن کے ایک ہوٹل سے سیر کے لئے باہر نکلا ۔ وہاں پارک کے برابر میں ایک بوڑھی خاتون کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ میں اپنا کام نمٹا عصر بعد واپس آیا تو میں اس وقت بھی بوڑھی خاتون کو کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔میں اپنے دل کی آواز سن کر بڑی بی کی طرف متوجہ ہوا اور جیسے ہی میں انہیں مخاطب کرنے کے لئے ’’ہائی‘‘ کہا تو وہ بے حد خوش ہوئیں۔

شکوہ کرنے لگیں کہ صبح سے اب تک مجھ سے کسی نہ بات تک نہیں کی۔ میں ’’ہائی‘‘ سننے کے لئے ترس گئی۔ بڑی بی نے مجھے اپنی درد بھری کہانی سنائی۔اپنے شوہر کی وفات اور پھر سسرال والوں کی جانب سے گھر سے بے گھر کرنے کا واقعہ سنایا۔ بڑی بی نے کہا وہ لندن میں بے یار ومددگار لوگوں کی پناہ گاہوں کے چکر کاٹتی رہیں ہیں۔ بڑا درد ناک قصہ تھا بڑی بی، بھلانے کی کوشش کے باوجود بھلانہیں پاتا۔ السدیس نے عرب ممالک میں صرف مصر ، لبنان اور خلیجی ممالک کا ہی سفر کیا ہے۔ آئندہ برس مراکش جانے کا پروگرام ہے۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے گھر والے سیر وسیاحت پر مجھ سے شاکی نہیں۔شادی کے بعد بیوی بھی شاکی نہیں ہوگی کیونکہ میں اسے اپنے ہمراہ لے جایا کروں گا۔ السدیس نے بتایا کہ لوگ میری سرگرمیوں پر نظر رکھتے ۔ مجھ سے بور نہیں ہوتے کیونکہ میں انہیں ہر دفعہ کچھ نہ کچھ نیا دکھاتا ہوں۔ ایک منظر اور ایک چیز دوبارہ نہیں دکھاتا۔

شیئر: