امت مسلمہ کا شیرازہ اورہماری ذمہ داری
نثار احمدحصیر قاسمی ۔ حیدرآباد دکن
اس وقت ساری دنیا میں امت مسلمہ پُر آشوب دور سے گزر رہی ہے، ہر جگہ انہیں ذلیل وخوار کیا جارہاہے، پوری امت کمزوری ولاغری، انحطاط وپسپائی اورعاجزی وبے بسی کی علامت بن گئی ہے، ان کی یہ افسوکناک صورتحال اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ اس کا پہلے کوئی مسلمان تصور تک نہیں کرسکتا تھا اورنہ پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی اتنی ذلت اٹھائی تھی اورنہ وہ اس قدر کمزور ولاچار اورعاجز وبے بس ہوئے تھے۔آج مشرق سے مغرب تک کی ساری اسلام دشمن طاقتیں بلکہ ساری غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئے ہیں۔ہر کوئی مسلمانوں کو ہر جگہ نشانہ بنارہا ہے، سب کے سب مسلمانوں کے شیرازے کو منتشر کرنے ان کے جسم کے ٹکڑے کرنے، ان کے تانے بانے کو بکھیرنے، ان کی ہڈیاں توڑکر انہیں اپاہج بنانے اورانہیں بے جان کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیںتاکہ مسلمان اس قدر کمزور ولاغر اورناتواں وبے بس ہوجائے کہ وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہوسکے، وہ کبھی اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کا تصور تک نہ کرسکے۔انہوں نے ہر میدان میں مسلمانوں کو نشانہ بنایاہے،ان کا شیرازہ منتشر ہوچکاہے، ضعف ولاغری ان پر مسلط ہوچکی ہے، بزدلی ان پر عفریت کی طرح چھاچکی ہے، ان کی باتیں بے وزن ہوچکی ہیں، ان کا دبدبہ ختم ہوچکاہے، ان کی ہوا اکھڑ چکی ہے اوراس کی جگہ ان پر ذلیل سے ذلیل، کمزور سے کمزور اورملعون سے ملعون قوموں کی ہیبت بیٹھ چکی ہے، وہ دوسروں سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ اس کمزوری وپسپائی کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی کتاب، اپنی شریعت، اپنے رب کے احکام اوررسول للہ کی سنت وتعلیمات سے منہ موڑ لیاہے، وہ خانوں میں بٹ گئے اورپھوٹ وانتشار کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ انہیں معلوم تھا کہ اتحاد واتفاق کمزوروں کو بھی طاقتور بنادیتا اورطاقتوروں کی قوت کو دوبالا کردیتاہے۔ اتحاد ہی کسی قوم کی سر بلندی کا ذریعہ ہوا کرتاہے، مسلمانوں کی عزت وسربلندی بھی اسی اتحاد واتفاق کی مرہون منت تھی۔ اینٹ خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اوراس کی تعداد لاکھوں میں کیوں نہ ہو اگر منتشر اوربکھری ہوتی ہے تو کمزور ہے، معمولی سے معمولی شخص بھی اسے اِدھر سے اُدھر اٹھاکر پھینک سکتا اوراسے توڑ کر ریزہ ریزہ کرسکتاہے، مگر یہی اینٹیں اگر دیوار میں چن دی جائیں تو وہ آپس میں مل کر اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ اسے توڑنا اورمنہدم کرنا آسان نہیں ہوتا۔اسے توڑنے کیلئے بڑے بڑے بلڈوزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی کو رسول اللہ نے مثال سے سمجھایا اورفرمایاہے:
المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا وشبک بین أصابعہ )
’’ مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض حصہ دوسرے بعض کو تقویت دیتاہے۔‘‘(متفق علیہ)۔
اسے فرمانے کے بعد رسول اللہ نے اپنی دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔
اس وقت ساری دنیا میں دین حنیف پر بدترین حملے کئے جارہے ہیں، جو ہم سے تقاضا کررہے اورہمیں دعوت دے رہے ہیں کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوںاوراپنی کوتاہیوں کی تلافی کی طرف توجہ دیں۔ اس وقت کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ دنیا کے کسی نہ کسی خطہ میں دین اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کی جارہی ہو،اس پر طرح طرح کے الزامات نہ لگائے جاتے ہوں اوراس کے فطری ومتوازن قوانین کا مذاق نہ اڑایا جارہا ہو، اس کے ساتھ ہی ہرجگہ بالخصوص ہندوستان میں مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے اورانہیں آپس میں لڑانے کی کوشش نہ کی جارہی ہو۔ابھی حال ہی میں اترپردیش میں شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین ایک رافضی وسیم رضوی کے مدارس اسلامیہ کے خلاف بیانات دشمنان اسلام کی اسی کوشش کی کڑی ہے اوران رافضیوں سے یہ بعید نہیں کہ یہ روزاول سے ہمارے خلاف رہے ہیں، وہ ہمارے خلاف کسی سے بھی ہاتھ ملانے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ خود آرایس ایس اوربی جے پی کے رہنما باربار اعلان کرچکے ہیں کہ شیعہ، رافضی اورقادیانی ہمارے ساتھ ہیں۔
آج امت مسلمہ نے اپنے بنیادی مسئلہ کو فراموش کردیاہے۔اس کے افراد اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اپنی ذاتی معمولی وحقیر سی منفعت کی خاطر پوری قوم اورپوری امت مسلمہ کے وقار اورپوری شریعت کا سودا کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے وطن میں بکھرے ہوئے ہیں، ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی ربط اوراتحاد نہیں ۔ ہر کوئی اپنی اپنی بول بول رہا اوراپنے سُرمیں گارہا ہے بلکہ ہرفرد قائد بناہواہے۔ کوئی دوسرے کی بات اورکسی کو اپنا قائد ماننے کیلئے تیار نہیں کہ آج قائدین بھی بکائو مال کی طرح اِدھر سے اُدھر ڈھلکتے رہتے اوراپنے مفادات کے لئے دین اسلام کا سہارا لے رہے ہیں۔ان میں مصلحت پسندی اورخوف گھر کرگئی ہے۔ وہ کھلے عام بات کرنے اورصحیح موقف اختیار کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں کہ کہیں ہم حکومت کے عتاب کا شکار نہ ہوجائیں، کہیں ہمارے ادارے کا حساب کتاب نہ مانگ لیاجائے، کہیں ہمارے املاک پر شکنجہ نہ کساجانے لگے، اس طرح انہیں بلیک میل کیا جاتااوروہ آسانی کے ساتھ بلیک میل ہورہے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مسلمان سب کچھ دیکھ رہے، سمجھ رہے، ساری سازشوں کو محسوس بھی کررہے اورآپسی رسا کشی اوراختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت بھی محسوس کررہے ہیں پھر بھی باہم دست وگریبان ہیں، ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے اورایک دوسرے کی تکفیر تک کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، مناظرے ہورہے، گالی گلوج ہورہا اورجوتیوں میں دال بٹ رہی ہیں، جس سے ہمارے اصل دشمن شاداں وفرحاں ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ احساس کے باوجود امت مسلمہ نہ عقیدۂ واحدہ پر جمع ہورہی اورنہ ہی رسول اللہ کے لائے ہوئے اصول اوراسلام کی بنیاد پر یکجا ہورہے ہیں بلکہ کل حزب بمالدیہم فرحون کی زندہ مثال بنے ہوئے ہیں۔ کیا اس پُر آشوب دورمیں ہمارے لئے یہ ضروری نہیںکہ ہم اسلام کے گرد جمع ہوجاتے اوراپنے ذاتی مفادات کو قربان کرتے ہوئے اسلام اوراس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ لیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے :
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا ۔
’’سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو، اورپھوٹ کا شکار نہ بنو۔‘‘(آل عمران103)۔
ولاتنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم۔
’’آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم ناکام ہوجائوگے اورتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپس میں جب بھی کوئی اختلاف پیدا ہو، کسی کی جانب سے جفاہو، تعلقات منقطع کئے جائیں، رنجش وکدورت رونماہو، گلے شکوے ہوں اورحالات ایک دوسرے کو دور کرنے لگیں تو ہم دین کی طرف رجوع ہوں ۔ہم یاد کریں کہ ہم سب ایک جیسی نماز پنجگانہ اداکرتے ہیں، ایک قبلے کا رخ کرتے ہیں، ایک رسول() کی پیروی کرتے ہیں، ایک رب ذوالجلال کی عبادت کرتے ہیں، ہمارا دین ایک ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، ہماری کتاب ایک ہے، ہمارا رسول() ایک ہے، اورہم سب سنت رسول ()کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں، پھر ہم آپس میں کیوں دست وگریباں ہیں، ایک دوسرے کی جڑکاٹنے کیلئے کیوں دشمنان اسلام کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں؟
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے، الفت ومودت قائم کرنے، ایک دوسرے سے قریب اورمل جل کررہنے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے ہرایک کا بھلا چاہنے اورخیرخواہی کرنے اوردوسروں کا سہارا بننے کی تعلیم دی ہے۔ ہمارے دین وایمان نے ہمیں آپس میں بغض وعناد رکھنے، حسد وجلن کرنے، ایک دوسرے سے منہ موڑنے اوردوسروں کی جڑیں کاٹنے سے سختی سے منع کیا ہے، سچا مسلمان وہی ہے جس میں اس طرح کی مذموم صفتیںنہ پائی جاتی ہوں اوروہ سراپا دوسروں کاخیرخواہ وبہی خواہ ہو، اللہ کے نبی کا ارشاد ہے:
لاتقاطعوا ولاتدابروا ولاتباغضوا ولاتحاسدوا وکونوا عباداللہ اخوانا کما امرکم اللہ۔
’’نہ باہم ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو اور نہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹو ،نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ حسد کرو اور اللہ کے بندو !بھائی بھائی بن جاؤ جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیاہے۔‘‘(رواہ مسلم)۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے اسلام ،مسلم قائدین ، زعمائے امت ،داعیانِ دین اور مسلمانوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات آپس میں پہلے اپنے دلوں کو جوڑیں، اپنے اختلافات کو دور کریں ،اپنی صف میں اتحاد پیدا کریں ،اپنے ذاتی مفادات پر ملی مفادات کو مقدم رکھیں ،اپنی دکانوں سے زیادہ دین و امت مسلمہ کی حفاظت کی فکر کریں ،آپس میں اتحاد واتفاق کے بعد قوم و ملت کو الفت و محبت ،اتحاد واتفاق اور دلوں کو جوڑنے کی دعوت دیں ۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ روئے زمین پر اس وقت کوئی بھی دین و مذہب ایسا نہیں جس نے اسلام کی طرح اخوت وبھائی چارگی ، اتحاد واتفاق میل ملاپ ،الفت ومحبت، تعاون و دستگیری باہمی تعاون اور کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کی تعلیم دی ہو، اسلام ہی کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے اس پر بہت زیادہ زور دیا اورپھوٹ وفرقہ بندی، اختلاف وانتشار، آپسی رنجش وکدورت، عداوت ودشمنی، بغض وعناد اورآپسی رساکشی سے سختی سے منع کیا ہے، اسلامی شریعت اورکتاب وسنت اس کی تعلیمات سے بھری پڑی ہیں۔
اتحاد واتفاق ہلاکت وبربادی سے تحفظ کی کلیدہے، تنہا فرد کہیں بھی ضائع وبرباد ہوسکتا ہے، اسے کوئی بھی شکاری آسانی سے شکار کرسکتاہے مگر وہی فرد جب جماعت کے ساتھ ہوتاہے تو وہ ضائع ہونے یاشکار بننے سے محفوظ ہوجاتاہے۔ایک بکری اگر ریوڑ سے الگ ہوجائے تو بھیڑیا اسے دیکھتے ہی اپنا لقمۂ تر بنالیتاہے مگر وہ جب اپنے ریوڑ میں ہوتی ہے تو بھیڑئیے کو بھی اس پر حملے کرنے کی ہمت نہیں
ہوتی۔
آج مسلمان ساری دنیا بالخصوص ہندوستان میں تکلیف دہ دور سے گزررہے ہیں۔ہمارے قائدین ورہنما اپنی دکانیں چمکانے میں اورپیسے بنانے میں لگے رہے، ان کی ساری سرگرمیاں اورمذہبی دورے اونچی عمارتیں کھڑی کرنے اوردنیوی شہرت کیلئے ہوتے رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو خواب آور گولیاں کھلاکر ان کے جیب ہلکے کرتے رہے اوردشمنان اسلام اپنے منصوبے پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ مسلمانوں کادین واسلام محفوظ رہا اورنہ ان کی شریعت ومذہبی روایات، نہ ان کی جان محفوظ ہے نہ مال، اوراب تحفظ تحفظ کا شور مچایاجارہاہے جس میں بھی خودنمائی اورمادی منفعتوں کا عنصر نمایاں ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے سماج اوراپنے خاندان میں مثبت رول ادا کریں۔ وہ اپنے اختلافات کو فراموش کریں، باہم اتحاد پیدا کریں۔ہمارے رہنما بھی اپنے اختلافات اوردلی کدورتوں کو دور کرکے باہم بغل گیرہوں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے عمل میں اخلاص پیدا کریں۔ہمارا اس راہ میں ہر عمل چھوٹاہو یا بڑا وہ محض اللہ کے واسطے ہو، اس میں دنیوی منفعت اورشہرت ودکھاوے کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ہمارے دلوں میں اپنے مخالفین کے تعلق سے الفت ومحبت کے جذبات ہوں اوردین کی خاطر انہیں گلے لگانے کیلئے راضی ہوں،اس کے بغیر ہم ہزار جلسے جلوس کرتے رہیں اورتحفظ کے نعرے بلند کرتے رہیں، کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ۔ہم جب تک اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے دوسروں کے اندر تبدیلی لانے کا عمل یا اس کی کوشش محض ایک خواب ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی ہماری نیت اورہمارا عمل اپنے ملک کے تمام باشندوں کو نفع پہنچانے کاہو۔مسلم ہوں یا غیرمسلم ہم ہر ایک کے بہی خواہ وخیرخواہ ثابت ہوں، ہم آپسی اتحاد ویکجہتی کے ذریعہ ملک میںامن و امان قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہے اورقتل وغارتگری انتہا پسندی کے ذریعہ جو ملک کو کمزور کررہے اورملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں، اس کا جواب ہم الفت ومحبت سے اورانتہاء پسندانہ عمل کا جواب خیر سگالی سے دیں۔