پاک، چین دوستی نئے دور میں داخل
کراچی (صلاح الدین حیدر )یوں تو روزِ اول سے ہی چین اور پاکستان کی دوستی بے مثال رہی ہے ،1962میں جب پاکستان نے پڑوسی ملک سے سرحدوں کی تقسیم کا معاہدہ کیا تو امر یکہ نے سخت مخالفت کی۔ اس لئے کہ ہم اس وقت امریکی وزیر خارجہ جون فوسٹرڈلاس کے خیالات کے مطابق دفاعی معاہدوں سیٹو، اور سینٹو کے ممبر تھے۔ ہم سے خفگی کا اظہار کیا گیا، بات سیدھی سی تھی کہ امر یکہ اس وقت کمیونزم کا بد ترین دشمن تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر خارجہ بنتے ہی پاکستان کی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی آئی۔ روس جو اس وقت سوویت یونین کہلاتا تھا اور چین کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی۔ اس دن سے لے کر آج تک چین نے ہمارے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ 1965کی پاک ۔ ہند جنگ میں اس وقت کے چینی وزیر دفاع مارشل چن یی،جنگ کے دوران کراچی آئے اور بھٹو کی ذاتی رہائش 70کلفٹن میں رات کو ایک بجے ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ہند کو تنبیہ کی کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے دلی کو نقصان ہوگا۔ ویسے تو اور بہت سی مثالیں ہیں جہاں پاک چین دوستی جس کے بارے میں بھٹو نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ یہ ہمالیہ سے بلند ، اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ صحیح ثابت ہوا، کڑے سے کڑے وقت میں چین پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے ہی بڑھتا رہا۔ زرداری صاحب صدر مملکت تھے تو انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری جسے عام الفاظ میں اب سی پیک کہا جاتاہے کی تجویز پیش کی جسے بعد میں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ چین نے پہلے 45ارب ڈالر اور بعدمیں 63ارب ڈالر کے منصوبے پاکستان میں گوادر سے لے کر چین کی سرحدوں تک صنعتوں، لمبی چوڑی سڑکوں ، بجلی کے کارخانے ، کا جال بچھانے کی تیاری شروع کردی۔پاکستان میں سیاسی حالات دگرگوں ہونے کے باعث اس میں اس تیزی سے تو عمل درآمد نہیں ہوسکا جس تیزی سے چین اسے بڑھانا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ بھی پاکستانی حکومت کی غفلت تھی۔نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم بجلی کے کارخانے اور ہائی وے ، اور موٹر وے ، کا جال بچھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس وقت طویل سڑک پر جو بلوچستان سے لے کر سندھ، اور خیبر پختون خوا سے ہوتی ہوئی چین تک جاتی تھی۔ اس پر سارا زورصرف کردیا ، نتیجتاً پاکستانیوں میں بے چینی پھیلنی شروع ہوئی کہ آخر صنعتی منصوبے کب لگیں گے۔ان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی، صرف اتنا کہا گیا کہ اس لمبی چوڑی سڑک پر بہت سارے صنعتی منصوبے مکمل کئے جائیں گے، خدشات نے جنم لینا شروع کیا۔ یہاں تک بات پہنچی کہ شاید چینی اپنے سارے منصوبے پاکستان میں لگائے گا۔ جس میں بھاری اکثریت چینی مزدوروں کی ہوگی تو پھر پاکستان میں روز گار کا کیا ہوگا۔ شکوک و شبہات کا جنم لینا لازمی تھا۔ سابق وزیر احسن اقبال محض لفاظی سے کام لیتے رہے، کبھی تفصیل عوام کے سامنے پیش نہیں کیں۔ نئی حکومت سے بھی خدشات تھے اور وہ اتنے بڑے منصوبے کی تفصیل کا جائزہ لینے میں جائز طور پر دلچسپی رکھتی تھی کہ آخر اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا۔ یہ بات چینی حکومت تک بھی پہنچا ئی اور ان کے وزیر خارجہ 3 روزہ دورے پر ہفتے کوپاکستان تشریف لائے ۔اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی ، وزیر اعظم ،آرمی چیف ، جنرل قمر باجوہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور دوسرے کئی لوگو ں سے ملاقاتیں کیں۔ شبہات کودور کیا۔ ایک مشترکہ اعلامیہ میں ےہ صاف طور پر کہا گیا کہ چین پاکستان کی ضرورتپوری کرنے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ بات صاف ہوگئی کہ چینی اور پاکستانی صنعت کار اور کمپنیاں مل جل کر منصوبے لگائےں گے۔ پاکستان کے محنت کشوں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ چین پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے دورہ خاص اہمیت حاصل کرگیا۔ اب یہ بجا طور پر کہا جاسکتاہے کہ پاک ۔ چین دوستی ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ چینی وزیر خارجہ کا دورہ¿ پاکستان کامیاب رہا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس سال نومبرمیںچین کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔ اس اعلان سے اس بات کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ چین نواز شریف کی حکومت کو اقتدار سے ہٹائے جانے پر پریشان تھا۔ دوستی ملکوں کے دوران ہوتی ہے۔ شخصیتوں کے دوران نہیں، یہ بات شاہ محمود قریشی پہلے ہی سمجھا چکے تھے ۔ پاکستانیوں کو اس دورے سے بے انتہا خوشی ہوئی اور چین نے پھر پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کااعادہ کیا جو کہ خوش آئند ہے ۔