Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’کیمرہ مین ’’تڑنگ‘‘ کیساتھ میں ہوں ’’تڑنگ‘‘، تڑنگ نیوز،لاہور‘‘

-----------ہمارے دوست نے مختلف نجی چینلر پر پے در پے ایک دوسیاسی ٹاک شوز ایسے دیکھے کہ وہ پاگل ہوگیا

شہزاد اعظم ۔ جدہ

ہمارے ہاں کی سیاست کو ایک موروثی مرض لاحق ہے اور وہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت، سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو ہی ملکی مسائل اور مخدوش صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ آج تک ہم نے کسی آنے والی حکومت سے یہ نہیں سنا کہ جانے والی حکومت کی ہمارے سر مڑھی جانے والی باقیات میں کوئی منفعت بخش، اچھی یا قابل قدر چیز بھی پائی گئی ۔اگر ہم غیر سیاسی انداز میں دیکھیں تو ایک بات حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا وہ یہ کہ سابق آمرانہ دورِ حکومت میں برقی ذرائع ابلاغ یعنی الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی گئی ۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو اس سے قبل پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ میڈیاکی اس آزادی نے کسی ایک شعبۂ حیات کو متاثر نہیں کیا بلکہ زندگی کے مختلف میدانوں میں اس نے ہلچل مچائی اور اثرات مرتب کئے ہیں۔ اسی میڈیا نے بعض ایسی باتیں بھی ہر کس و ناکس کے سامنے طشت از بام کیں جو برقی ابلاغ کی آزادی سے قبل لوگوں کے خیال و خواب میں بھی نہیں آتی تھیں۔اسی طرح برقی میڈیا نے اپنے نمائندوں کو کیمرہ مین دے کر پاکستان کے چپے چپے میں چھوڑ دیاجو کونے کھدروں میںجا کرعجیب و غریب مناظر عکس بند کرتے ہیں اور پھر انہیں ٹی وی اسکرین پر پیش کر دیتے ہیں۔چینل کوئی بھی ہو اور کلپ کسی بھی قسم کا ہو، اس کلپ کے مناظر دکھانے کے بعد ایک جملہ ایسا ہے جو ہر چینل پر سننے کو ملتا ہے۔ فرض کریںکہ ٹی وی چینل، کیمرہ مین اور نمائندہ تینوں کا ایک ہی نام ہے اور وہ ہے ’’تڑنگ‘‘۔ ہر تصویری رپورٹ کے بعد اختتامی جملہ اور پھر شہر کانام سنایا جاتا ہے۔ فرض کریں کہ یہ رپورٹ لاہور سے پیش کی گئی تو اس کا اختتامی جملہ یوں ہوگا:

’’کیمرہ مین ’’تڑنگ‘‘ کیساتھ میں ہوں ’’تڑنگ‘‘، تڑنگ نیوز،لاہور‘‘ ان چینلز نے ایسے ایسے مناظر پیش کئے کہ انہیں دیکھنے والوں میں سے کچھ ہکا بکا، کچھ ششدر، کچھ حیرت زدہ، کچھ افسردہ، کچھ مخمصے کا شکار،کچھ ہذیانی، کچھ اچنبھے میں مبتلااور کچھ مستندنفسیاتی مریض ہو چکے ہیں۔کئی ناظرین تو ایسے ہیں جو آزاد برقی میڈیا کے دیوانے ہوا کرتے تھے مگر آج کل وہ قہقہے لگاتے، چیختے چلاتے ایدھی کے پاگل خانے میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ہمیں کراچی میں ایدھی کے پاگل خانے جانا پڑا کیونکہ ہمیں خبر ملی تھی کہ ہمارا اسکول کا ساتھی پاگل ہو گیا تھا جسے ایدھی سینٹر میں ’’جمع‘‘ کرا دیا گیا تھا۔

ہم اپنے اس دوست سے ملنے پہنچے تودل خون کے آنسو رونے لگا کیونکہ ہمارے اس قدر ’’قدیم دوست‘‘ نے ہمیں بالکل نہیں پہچانا۔ ہم وہاں 3گھنٹے تک بیٹھے رہے کہ شاید سلاخوں کے پیچھے سے ہمیں دیکھ کر وہ پہچان لے۔ ان تین گھنٹوں میں ہم نے وہاں کیا مناظر دیکھے، ذرا غور فرمائیے: تین چار پاگل اُس جیل نما کمرے میں موجود تھے ۔ وہ اچانک اٹھے اورایک جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے چلا چلا کر، ہاتھ نچا کرباتیں کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ جب پاگل خانے کے لٹھ بردار ذمہ داران انہیں چپ کرانے کے لئے آئے توانہیں آتا دیکھ کر وہ فوراًبولے کہ ’’ناظرین یہاں لیتے ہیں ہم ایک چھوٹا سا وقفہ، ہمارے ساتھ رہئے۔‘‘

اس کے بعد ان تینوں چاروں نے الٹے سیدھے جملے بولنے کے ساتھ ہی منہ سے موسیقی کی آوازیں بھی نکالنا شروع کر دیں۔ ان سے لٹھ بردارذمہ داران نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ یہ سن کر ہمارے دوست نے بڑی سنجیدگی سے تحکمانہ انداز میں کہا کہ ’’ابے کیا پاگل ہو گیا ہے، نظر نہیں آتا ہم ’’ٹاک شو‘‘ کر رہے تھے۔ بیچ میں تم ڈسٹرب کرنے آگئے اس لئے ہم نے بریک لے لی ہے اور اس وقت اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں۔ ہم نے ایک لٹھ بردار افسر سے دریافت کیا کہ ہمارا دوست یہاں کیوں آیا؟ اس نے کہا کہ وہ مختلف نجی ٹی وی چینلر کے سیاسی ٹاک شوز روزانہ دیکھا کرتا تھا۔

اسی دوران پے در پے ایک دو شوز ایسے دیکھے کہ وہ پاگل ہوگیا۔ ہم نے ان کے گھر والوں سے دریافت کیا تھا کہ وہ کون سے شوزتھے؟ انہوں نے بتایا تھا کہ پہلے تو انہوں نے ایک ٹاک شو میں رپورٹ دیکھی تھی جس میں ہمارے پرانے وزیر اعظم کی دو وڈیو کلپس ایک ساتھ دکھا دی گئی تھیں۔ ایک میں وہ کہہ رہے تھے کہ ’’میں نے اُس عہدیدار سے استعفیٰ نہیںلیا بلکہ انہوں نے خود ہی مجھے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا‘‘جبکہ دوسری کلپ میں وہ فرما رہے تھے کہ’’ میں نے اُس عہدیدار سے کہا کہ آپ فوراً اپنا استعفیٰ لکھ دیں، تو انہوں نے استعفیٰ لکھ دیا۔‘‘اس کے کچھ ہی دیر بعد آپ کے دوست نے اُسی چینل پر ایک اور سیاسی ٹاک شودیکھا جس کے انٹرو میںدکھایا گیا تھا کہ ایک پاکستانی نوجوان لاہور میں ٹیکس جمع کرانے کے لئے گیا مگر وہاں ٹیکس وصول کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ کافی دیر تک دھوپ میں کھڑا انتظار کرتا رہا۔بعدازاں اسے پتہ چلا کہ عملہ آج بھی ہڑتال پر ہے۔ اس سے نجی چینل کے نمائندے نے کیمرہ مین کی موجودگی میں سوال کیا کہ آپ یہاں پریشان کیوں ہیں؟ اس نے کہا کہ میں تین دن سے روزانہ یہاں آ رہا ہوں کیونکہ مجھے 10لاکھ روپے ٹیکس جمع کرانا ہے مگر یہاں عملے کا کوئی رکن موجود نہیں ہوتا۔ چوکیدار کا کہنا ہے کہ محکمے کے ملازمین نے ہڑتال کر رکھی ہے۔اس کا نام ’’تڑنگ ‘‘ تھا۔ بس یہ رپورٹ دیکھ کر آپ کے دوست پر پاگل پنے کا ایسا حملہ ہوا کہ انہوں نے نعرہ مارنا شروع کر دیا کہ ’’میرا وزیر اعظم تڑنگ،میرا وزیر اعظم تڑنگ ‘‘۔ وہ دو روز تک یہی نعرہ مارتے رہے تو گھر والوں نے ڈاکٹر کو دکھایا جنہوں نے انہیں فوراً یہاں بھجوا دیا۔

شیئر: