Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسم میں دوا کی ترسیل کیلئے ’’نانو راکٹس‘‘

درجۂ حرارت35سیلسیئس سے زیادہ ہو تو نانو راکٹ کی بریکس لگ جاتی ہیں، درجہ حرارت کم ہو تو ایندھن فراہم کرنیوالا والو کھلتاہے اور حرکت شروع ہوجاتی ہے

 

نانو راکٹس جیسی خوردبینی مشینیںانسانی جسم میں ادویہ فراہم کرنے کے حوالے سے انتہائی موزوں اُمیدوار شمار کی جاتی ہیں۔ سائنسدان ان کو برسرکار لانے کے لئے تجربات و مشاہدات میں مصروف ہیں ۔ کیمیا دانوں نے اس ضمن میں ’’نانو راکٹ‘‘ کی منظم حرکت کا اولیں مظاہرہ کیا ہے ۔ ان نانو راکٹس کو ماہرین نے ایسی بریکس فراہم کی ہیں جو جسمانی درجۂ حرارت سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ نانوراکٹس میںبریکوں کے عملی اطلاق کے لئے درجۂ حرارت کا اثر انتہائی دلچسپ پہلو ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نانوراکٹس میں درجۂ حرارت کی حساسیت انہیں بیمار نسیجوں میں پہنچ کر ٹھہر جانے کی صلاحیت عطاکرتی ہے کیونکہ مرض سے متاثرہ نسیج یعنی ٹشو میں درجۂ حرارت زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث نانو راکٹس کو بریکس لگ جاتی ہیں۔ ریڈ باؤنڈ یونیورسٹی کے ماہرین ِ کیمیانے نانو راکٹس میں بریکوں کی میکانیت کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ جب درجۂ حرارت 35سیلسیئس سے کم ہوتا ہے تو نانو راکٹ کے برش پھول جاتے ہیںجن کے باعث والو کھلتا ہے اور ایندھن اندر داخل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایندھن راکٹ کو آگے کی جانب دھکیلتا ہے ۔ اس کے برخلاف جب درجۂ حرارت 35سیلسیئس سے زیادہ ہوتا ہے تو اس کے برش سکڑتے ہیں، والو بندہو جاتا ہے ، ایندھن کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوتا ہے اور نتیجتاً حرکت مفقود ہو جاتی ہے ۔

یہ تمام تفصیلات رواں ماہ ’’نیچر کیمسٹری ‘‘ نامی جرنل میں شائع کی گئی ہیں۔ نرم نانو نظام خود بخود ، خود کار انداز میں فعال اکائیاں بناتے ہیں جنکے باعث نانوراکٹس میں شکل یا ہیئت تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یہ ایسے ’’مال بردار‘‘ راکٹ بننے کے قابل ہوجاتے ہیں جن میں دواکی شکل میں کارگو رکھا جا سکتا ہے ۔ ریڈباؤنڈ یونیورسٹی میں بایو آرگینک شعبے کے سربراہ اور نانو میڈیسن تھیم لیڈر ڈینی ایلا ولسن کا کہنا ہے کہ اپنے نانو راکٹس کو مختلف قسم کی فعالیت فراہم کرنا ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سالمہ جاتی بنیادوں پر تعمیرشدہ اولیں بریک نظام کی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے جو نانو راکٹس کو مطلوبہ مقام پر روکنے اور یہاں سے آگے بڑھنے کے قابل بناتا ہے ۔ ڈینی ایلا ولسن نے واضح کیا کہ نانو راکٹس کے بریکس میں پائے جانے والے برش ’’پولیمرز‘‘ پر مبنی ہیںجو ردعمل کی حامل اکائیوں کی طویل لڑیاں ہیں۔

یہ نانوراکٹس کی سطح پر نمو پاتی ہیں۔ یہ برش ماحول کے درجۂ حرارت کے زیر اثر پھولتے اور سکڑتے ہیںاور یوں راکٹ کو ایندھن کی فراہمی باقاعدہ بناتے ہیں۔ماہرین نے اس مظاہرے کے دوران نانو راکٹس کے لئے ہائیڈروجن پر آکسائیڈکو بطور ایندھن استعمال کیا ۔ درجہ حرات میں کمی اور زیادتی سے نانو راکٹس کی بریکوں کا بند ہونا اور کھلنا ایسا عمل ہے جو عمل انگیز کی سرگرمیوں یا نانو راکٹ کی وضع قطع کو کسی طور متاثرنہیں کرتا۔اس لئے ایسے نانو راکٹ جن میں مذکورہ والو سسٹم موجود ہوتا ہے وہ پانی میں بھی زیادہ کارکردگی کے ساتھ حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںیہاں تک کہ اگر ایندھن کا ارتکاز بھی کم ہو تب بھی ان کی کارکردگی میں فرق نہیںپڑتا۔ ’’ایڈوانسڈ مٹیریلز‘‘کی ایک اور اشاعت میں ولسن اور ان کے ساتھیوں نے عملی مظاہرے سے ثابت کیا کہ کم قوت کا مقناطیسی میدان نانو راکٹس کے لئے کس طرح ’’اسٹیئرنگ وھیل‘‘ کا کام دے سکتا ہے ۔

اگر ہم راکٹ کے مرکزی حصے میں مقناطیسی دھاتی نکل کی مقدار میں اضافہ کر دیں تو ہم اس مقناطیسی میدان کو راکٹ کے اسٹیئرنگ کے طور پر استعمال کر سکیں گے اور اسے مطلوبہ سمت میں لے جانے کے قابل ہو سکیں گے۔ ولسن نے کہا کہ بہتری کی گنجائش تو بہر حال رہتی ہے ۔ انہوںنے اس حوالے سے کہا کہ درجۂ حرارت سے متاثر ہونے والی بریکس سے زیادہ دلچسپ ایسا نظام ہو سکتا ہے جو روشنی سے متاثر ہوتا ہو۔ اگر ایسا نانو راکٹ تیار کر لیاجائے تو ہم اس پر لیزر شعاع ڈال کر اس کو حرکت پر مائل کرنے اور چلتے ہوئے راکٹ کو روکنے کے قابل ہوجائیںگے۔

ایک اور بات یہ بھی اہم ہے کہ ہمارے نانو راکٹس زندہ خلیات کے لئے بلا شبہ زہریلے اثرات کے حامل نہیں لیکن یہ ابھی تک مکمل طور پر حیاتیاتی انحطاط پذیر بھی نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حیاتیاتی انحطاط پذیری ایک ایسی صلاحیت ہے جوجسمِ انسانی میں ادویہ بردار اجسام کے لئے انتہائی ناگزیر تصور کی جاتی ہے۔ ماہر کیمیا دانوں کا کہناہے کہ مذکورہ امور ان چیلنجز کی چند مثالیں ہیں جوہمارے گروپ کو درپیش ہیں۔ ہم ان پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کافی پُر اُمید ہیں۔

شیئر: