18اکتوبر 2018ء جمعرات کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی جریدے الریاض کا اداریہ نذر قارئین
سعودی عرب سے متعلق بعض مغربی اخبارات اور نیوز چینلز کا رویۂ انحطاطی انتہا کو پہنچ گیا۔تصور سے بالا تر ہے ۔ گزشتہ عشروں کے دوران سعودی عرب کے خلاف متعدد اداروں نے منظم تشہیری مہم چلائی ۔ اس کا باعث بہت سارے مسائل کی بابت سعودی عرب کا غیر متزلزل موقف ہے ۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کی پوری قوت سے مخالفت، اسی طرح خطے کے ممالک میں تخریبی سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف اور عرب دنیا نیز عالم اسلامی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا اہتمام؛ وہ کام ہیں جن پر سعودی عرب کو پروپیگنڈہ مہم کا ہدف بنایا جا رہا ہے ۔
ان دنوں سعودی عرب کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش بھیانک شکل میں کی جا رہی ہے ۔ یہ مملکت کے خلاف تشہیر کی قدیم مہم کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ یہ درست ہے کہ مواصلاتی دنیا میں انقلاب نے معلومات کے حصول کو آسان بنادیا ہے تاہم ابلاغی ادارے ابلاغ کے بجائے تشہیر کی روش اپنانے پر بضد نظر آرہے ہیں ۔ 20برس قبل کوئی بھی خبر یہ کہہ کر کہ ’’باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ‘‘ جاری کر دی جاتی تھی اور اس پر کسی کو کسی طرح کی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔عصر حاضر میں حقیقت تک رسائی میں معاون ذرائع کے ہوتے ہوئے اس قسم کی عبارت کا استعمال معیوب مانا جا رہا ہے ۔ بعض ذرائع ابلاغ اس کے باوجود آج بھی اپنی سازشوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس قسم کی تعبیرات دھڑلے سے استعمال کر رہے ہیں ۔
سعودی عرب کے خلاف چلائی جانیوالی تشہیری مہم پیشہ وارانہ ضوابط اور اخلاقی اصولوں کے حوالے سے انتہائی قابل مذمت ہے ۔ اس مہم نے ابلاغی اداروں کا اعتبار کھو دیا ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ جیسا معتبر اخبار مملکت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنیوالوں کی صف میں شامل ہوگیا ۔یہ درست ہے کہ واشنگٹن پوسٹ امریکی صدر سے نالاں ہے۔ دونوں کے درمیان روزمرہ کی بنیاد پر نوک جھونک چلتی رہتی ہے تاہم یہ امریکہ اور واشنگٹن پوسٹ کا داخلی معاملہ ہے ،ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں البتہ سعودی امریکی تعلقات کو ٹرمپ کے موقف سے جوڑنا اور اس معاملے کو مختلف شکلوں میں سعودی عرب کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کرنا کسی طور درست نہیں ۔اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ صدر ٹرمپ سے اپنا حساب بیباق کرنے کیلئے سعودی عرب کو نقصان پہنچا رہا ہے جس کی اسے اجازت نہیں ۔