Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استقامت کیا ہے ؟

رہروانِ حق کو قتل و شہادت کی خلعت سے بھی سرفراز ہونے کا موقع ملتا ہے اور قید و بند کی سختیوں کو جھیلنے کا لمحہ بھی آجاتا ہے

 

سیدنا سفیان بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتائیے کہ پھر آپ کے بعد کسی اور سے مجھے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اعلان کردو کہ میں اللہ پر ایمان لے آیا ہوں،پھر اس (بات) پر ڈٹ جائو۔‘‘ (مسلم)۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر انسان یہ اعلان کرتا ہے کہ میں اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا پابند ہوں، اس کے مقابلے میں کسی دوسری قوت کا تابع نہیں ہوں۔ یہ قوت خواہ انسان کی اپنی ذات ہو یا مخلوق میں سے کوئی اور طاقت ،مسلمان کسی چیز کے ساتھ اگر کوئی ربط و تعلق رکھتا یا توڑتا ہے تو اس کی بنیاد محض اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنا الٰہ تسلیم کرنے کا اقرار و اعلان ہی ہوتا ہے۔ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو اس کو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن و سنت نے ان مشکلات میں اہلِ ایمان کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ مشکلات 2قسم کی ہوتی ہیں: ؐ

٭ اپنی زندگی کو اسلام کی تعلیم کے مطابق گزارنے کے دوران میں انسان کا اپنا نفس ایسی ایسی خواہشات کے چنگل میں گھر جاتا ہے کہ انسان کے قدم لڑکھڑانے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ شیطان کا بہکاوا اور دنیا کی چمک دمک انسان کو رب کی یاد سے غافل کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ اللہ کے حقوق کو کماحقہٗ ادا کرنے سے قاصر رہنے لگتا ہے، یا ادا نہ کرنے کی روش اپنا لیتا ہے۔ عبادات کے نظام میں اسلام نے جس ترتیب اور دوام کا مطالبہ کیا ہے اس میں کچھ ڈھیلاپن اور سستی درآتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں خاندان اور معاشرے کے غیر شرعی رسوم و رواج کے سامنے اسے سرنڈر کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے پر معاشرتی بائیکاٹ کی دھمکی دی جاتی ہے، رشتہ داری توڑ دینے کا خوف دلایا جاتا ہے، وقت کے ناروا تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، دین پر عمل کرنے کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، مولویانہ رنگ کو ذرا کم کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے، بدعات و خرافات کا جواز منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

٭ ایمان کے بعد مظاہرۂ استقامت کا دوسرا موقع وہ مشکلات و مصائب ہیں جن کا سامنا اولوالعزم پیغمبروں کو بھی کرنا پڑا۔ اصحاب الاخدود جن آزمائشوں سے گزرے ان کا ذکر سورۃ البروج میں ہوا ہے۔ جناب محمد رسول اللہ اور آپ کے صحابۂ کرام ؓ کو بھی ان سے سابقہ رہا۔عہد ِصحابہ کے بعدائمۂ دین نے بھی اس راہ کا مزہ چکھا اور ان کے بعد آج تک ہر وہ شخص اس سنت کو زندہ کررہا ہے جو ایمان کے تقاضوں کو حقیقتاً پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حق کی راہ میں رہروانِ حق کو قتل و شہادت کی خلعت سے بھی سرفراز ہونے کا موقع ملتا ہے اور قید و بند کی سختیوں کو جھیلنے کا لمحہ بھی آجاتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیںجب ایک مسلمان اپنے اسلام پر کار بند رہنے کا مظاہرہ کرنے کا مکلف ہے اور اس چیز کو برداشت کرنا جس قدر انسان کیلئے مشکل ہوگا اس کا اجر اسی قدر زیادہ ہوتا جائیگا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہوتی جائے گی۔ استقامت کے مظاہرے کا یہ موقع پہلے موقع سے شدید تر ہے اور اسی کے بارے میں رسول اللہنے ایک موقع پر فرمایا تھاجب کچھ صحابہ نے کفار کی سختیوں پر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا مطالبہ کیا:

’’تم میں سے پہلے لوگوں کا یہ حال تھا کہ ایک آدمی کو پکڑا جاتا،زمین میں گاڑا جاتا،آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر چیر دیا جاتا لیکن یہ چیز اس کو اس کے دین سے پھیر نہ سکی!! لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈیوں کو نوچا جاتا تھالیکن یہ چیز بھی اس کو اس کے دین سے دور نہ کرسکی!!۔‘‘ اور یہی وہ استقامت ہے جس کا حکم رسول اللہ اور اہلِ ایمان کو دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’پس اے نبی! تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفرو بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثا بت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔‘‘(ہود 112)۔ پھر اس کے انعام اور صلے کو یوں بیان فرمایا گیا: ’’وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس عقیدۂ توحیدِ ربوبیت پر ڈٹ جاتے ہیں تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔ ‘‘ یعنی مصیبتوں اور آزمائشوں کے مواقع پر اور موت کے وقت بھی فرشتے انہیں خوشخبری دیتے ہیں: ’’نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اُس جنت پر جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔‘‘ (حمٓ السجدہ 30)۔

شیئر: