Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فل سٹاپ اور کاما

- - - - - - - - - - - - - - - -- - - - - - - - - - - -  - - - - -- -  -- - - - - - - - - - - - - -  - - - - - - - -

 

ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی ۔ جدہ

- - - - - - -

فل سٹاپ اک روز کامے کے گلے ہی پڑ گیا

ایک دو تھپڑ بھی موقع پا کے اس کو جڑ گیا

کامے سے کہنے لگا، بیکار زیبائش ہے تو

میں تو آرائش ہوں جملے کی، پر، آلائش ہے تو

لفظوں کے آنگن میں تیرا کام کیا بالشتئے

راہ میں جیسے کھڑا ہو کوئی چندہ مانگنے

جد امجد شوشوں کا ہوں میں، میں یعنی، فل سٹاپ

میں ہی سب سے پہلے آیا تھا ، میں ہوں تم سب کا باپ

جملے کو میں کیوں گھسیٹوں، بات طولانی کروں

میں کوئی کاما نہیں جو اپنی من مانی کروں

کوزے کو دریا میں، میں، معجز بیاں کرتا ہوں بند

کیوں کروں بسیار گوئی ، میں لگا کے کامے چند

پیدا کرتا ہوں نئے امکان، کر کے ختم بات

تو رڑکتا رہتا ہے پچھلی کو، گو ہو جائے رات

جملے کے آخر میں لازم ہے فقط میرا وجود

کتنے ہی کامے لگے ہوں، جاوداں میری نمود

ہوں مدور شکل، جیسے چاند ہو پورا کوئی

اور کاما ایسے، جیسے دار پر لٹکا کوئی

درمیاں لفظوں کے تو کیا ڈھونڈتا ہے اے غبی

اک ٹٹیری بیچ میں فصلوں کے جیسے ہو گھُسی

بات کو میں ختم کر کے چل پڑوں آگے کہیں

تیرے چنگل سے مگر جملہ نکلتا ہی نہیں

کامے نے سن کر کہا کہ فل سٹاپ، اے فل سٹاپ

چھوڑ کر شوشے نئے، مت بن ہمارا مائی باپ

تو تو بس انگلش میں ہے، اردو میں تو کاما بھی ہے

زیب تن پتلون ہے، اوپر سے پاجامہ بھی ہے

گو نہیں غایت، فصاحت اور بلاغت کیلئے

میرا شوشا بھی ضروری ہے وضاحت کیلئے

نکتہ چینی کیلئے بھی نکتہ دانی چاہئے

میں ہوں مضموں میں ضروری، گر روانی چاہئے

آدمی اندر کا ہوں میں، سب مجھے معلوم ہے

محرم اسرار ہوں میں، جو بھی کچھ مرقوم ہے

ایک جملے کو بنا دیتا ہوں میں پیراگراف

اک حسیں پیرائے میں ، میں بات ڈھالوں واشگاف

تو جدائی پیدا کرتا ہے، میں ہوں یکسر ملاپ

میں علامت زیست کی تو موت کے قدموں کی چاپ

دیکھ آئینے میں جا کر کیا تری اوقات ہے

چوہدری بنتا ہے ہر جملے میں، گو کم ذات ہے

تو لگاتا ہے لبِ گویا پہ جبرا فل سٹاپ

یعنی تو آزادیٔ تحریر کا دشمن ہے آپ

گر لگانا ہے لگا، مہنگائی پر بھی فل سٹاپ

جھوٹ، رشوت خوری ، بدعنوانی پر بھی فل سٹاپ

سن کے چشمک، ایلفابیٹ سب وہاں پر آ گئے

کچھ نہیں ہے فرق تم دونوں میں، سمجھانے لگے

بولے، تم گونگے کسی گفتار میں آتے نہیں

ہو پس چلمن نہاں، دیدار میں آتے نہیں

گو زبانی گفتگو میں تم نہیں کچھ کارگر

پر کتابت اور کمپوزنگ ہے تم دونوں کے سر

کشور تحریر کے شہزادے تم دونوں سہی

ہیں ضروری جو بہت، وہ شوشے تم دونوں سہی

بس کرو، کیوں لڑ رہے ہو، بند کر دو یہ الاپ

اب نہیں بولے گا کوئی، چپ کرو، بس، فل سٹاپ

شیئر: