Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرنے والے

***ڈاکٹر ثریا العریض***
سعودی عرب میں ترقیاتی امور کے ماہر امریکی اسکالر نے ایک سوال کر کے مجھے الجھن میں ڈال دیا ۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں سرمایہ کاری کانفرنس جسے ’’صحرا ء کا ڈیوس‘‘کہا جا رہا ہے ،کس حد تک کامیاب ہو گی ۔ اس حوالے سے آپ کی توقعات کیا ہیں ۔ کیا اتنے لوگ شریک ہوں گے جتنوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے یا توقع سے کہیں زیادہ کم لوگ آئیں گے ۔ مدعو حضرات کی فہرست میں بعض بڑے سرمایہ کاروں اور عہدیداروں کے نام ہیں ۔ ان میں سے متعدد نے معذرت کر لی ہے ۔ ایسا استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعہ کے تناظر میں ہو رہا ہے ۔ 
امریکی اسکالر کے اس دھماکہ خیز سوال نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس نے ایک اور زاویۂ  نظر سے حالات حاضرہ پر غور کرنے کا روشن دان میرے سامنے کھولدیا۔اس سے مجھے لگا کہ خاشقجی کا واقعہ دیگر نادیدہ پہلوئوں سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ ابلاغی ، اقتصادی اور سیاسی دنیا کے تانے بانے ایک دوسرے سے بالواسطہ شکل میں جڑے ہوئے ہیں ۔ پیشہ وارانہ متوازن فیصلے کے حوالے سے متعدد مفروضے اور حقائق دعوت فکر دے رہے ہیں ۔ 
سرمایہ کاری کانفرنس کے حوالے سے تجزیہ نگار سوال کر رہے ہیں کہ موجودہ ابلاغی بحران کے ماحول میں کانفرنس کی کامیابی کے امکانات کیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرنے والے کو تالیاں بجا کرداد دے رہے ہیں ۔ معذرت کی ایک ہی وجہ سامنے آرہی ہے، وہ یہ کہ لوگ جمال خاشقجی کے قتل کے واقعہ سے متاثر ہیں ۔ 
مذکورہ دھماکہ خیز سوال نے مجھے سعودی صحافی کی موت اور سرمایہ کاری کانفرنس اور مہمانوں کی فہرست کے درمیان ربط و ضبط پیدا کرنے کی تحریک دی۔یہ یقینی بات ہے کہ پورا منظر نامہ ایسا نہیں کہ وہ کانفرنس کی ناکامی کو یقینی بنانے کی پیشگوئی کر رہا ہو تاہم اقتصادی دنیا میں اس کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ کانفرنس کی تاریخ اور اس کی تیاریوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض فریق سعودی عرب اور اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے در پہ ہیں ۔ انہوں نے اس واقعہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مملکت کا امن و استحکام اور یہاں کے ریاستی اداروں کی ساکھ دائو پر لگی ہوئی ہے ۔ سرمایہ کار بزدل ہوتا ہے ۔جہاں اسے انجانے خدشات کا جنگل نظر آتا ہے وہاں سے وہ سر پر جوتے رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ 
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سعودی قیادت کے دشمن بھی ہیں اور اعلانیہ اور چھپے ہوئے حاسد بھی ہیں ۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ سعودی عرب کی ترقیاتی اسکیمیں اور بدلائو کے شاندار منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوں ۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر سعودی عرب کو اس حوالے سے کامیابی ملتی ہے تو وہ اسے اقتصادی اور عسکری اعتبار سے دنیا کے موثر ترین ممالک میں آگے لے آئے گی ۔ مجھے لگ رہا ہے کہ خود ساختہ انارکی کی مدد سے مملکت کو اپنے عظیم مقصد سے الٹے پیر بھاگ کھڑے ہونے پر مجبور کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں ۔ 
اللہ کا کرم ہے کہ اس قسم کی تشہیری مہم کی کامیابی کا کوئی امکان مقامی یا بین الاقوامی سطح پر نظر نہیں آرہا ۔ ماضی میں فتنہ انگیز عناصر اس قسم کی حرکتیں کر چکے ہیں ۔ اس مرتبہ انہوں نے سعودی عرب کی ساکھ کو برباد کرنے کی ایسی کوشش کی جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ۔ یہ الگ بات ہے کہ انکی مہم ناکام ہو کر رہے گی ۔ 
جو لوگ تشہیری مہم چلانے والوں کے آگے جھکیں گے ناکام ہوں گے ۔ یہ بات یقینی ہے کہ ریاض کانفرنس سرمایہ کاری کے عظیم امکانات کا اعلان کریگی ۔ جی ہاں بعض مہمانوں نے کانفرنس میں شرکت کی معذرت کی ہے ۔ جلد ہی انہیں پتہ چل جائیگا کہ نقصان ان کا اپنا ہوا ہے کیونکہ دیگر سرمایہ کاروں نے فراہم شدہ امکانات حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی ۔ انہیں یقین تھا کہ یہ زریں موقع ہے ۔ جہاں تک معذرت کرنیوالوں کی بات ہے تو وہ ضائع شدہ امکانات کے تدارک کیلئے میزبان ملک سعودی عرب سے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر بھی معذرت کر لیں گے ۔ 
(بشکریہ:الجزیرہ)

شیئر: