Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ مفلسی کی لاش اٹھائے کاندھے شل ہو چکے ‘‘

بیوی نے اس کا ساتھ دیا ، اس میں جینے کی امنگ پیدا ہوئی وہ دوبارہ عزم کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹ آیا

 

عنبرین فیض احمد ۔ ریاض

اُس کی ماں کے کھانسنے کی آواز سے اس کے اٹھتے ہوئے قدم رک سے گئے اور وہ اپنے ماضی میں کھوگیا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ تھا ۔ اسے اپنے گھرس میںکبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔اسکا بچپن بھی نوابوں کی طرح گزراتھا۔ والد صاحب جوتوں کا کاروبار کرتے تھے۔ بچپن میں وہ بہت ضدی اور نافرمان تھا کسی کی بات سننا پسند نہیں کرتاتھا ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ اس کی بیوی کی آوازنے اسے چونکا دیا۔وہ کہہ رہی تھی :

’’ سنئے! اماں کی دوا کل سے ختم ہوچکی اور ابھی تک نہیں آئی ۔ بے چاری اماں کا تو کھانس کھانس کر برا حال ہورہا ہے ،کھانسی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ۔ ‘‘

اس نے کہا کہ میرے پاس پیسے کہاں ہیں جو اپنی ماں کا علاج کرواسکوں یااس کیلئے دوا لے کر آسکوں۔ جب بھی وہ اپنے حالات سے دلبرداشتہ ہو تا تو اس کی بیوی اسے صبر کی تلقین کرتی۔ وہ جواب میں کہتا کہ میں تمہاری طرح تحمل مزاج نہیں ۔ غربت اور مفلسی کی لاش اٹھائے اٹھائے میرے کاندھے شل ہو چکے ہیں ۔ مجھ جیسے جوان بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی میری ماں سسک سسک کر موت کے قریب جارہی ہے۔ وہ دوا کیلئے ترس رہی ہے۔ میں اپنی بیمار ماں سے کیسے کہوں کہ میں پیسوں کا انتظام نہیں کرپایا، میں آپ کی دوا نہیں خریدسکتا۔ادھر اس کی ماں کی حالت تھی کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس کو وہ دور یاد آگیا جب اس کے والدبقیدِ حیات تھے اور ان کا کاروبار خوب پھل پھول رہا تھا ۔

شہر کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹر میں ان کی دوکان تھی۔ وہ رات دن محنت کرتے مگر اسے تو جیسے محنت کے نام سے ہی نفرت تھی۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور کاروبار سنبھالے۔ وہ بڑے اچھے دن تھے جو گزر گئے۔ اب وہ لوٹ کر کبھی نہیں آئیں گے۔ اس کی آنکھوں میں درد سے آنسو آگئے۔ اس نے کسی نہ کسی طرح میٹرک پاس کیا تو والد صاحب نے کہا تھا کہ میٹرک پاس کو توآج کل کوئی چپراسی بھی بھرتی نہیں کرتا۔ اس نے انٹر کا امتحان ہی بڑی مشکلوں سے پاس کیا۔وہ سوچتا تھا کہ تعلیم حاصل کرکے کیا کرنا، اسے تو والد صاحب کا کاروبار ہی سنبھالنا ہے۔

اسی لئے اس نے سلسلۂ تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ وقت کا پنچھی یونہی اڑتا رہا پھرشہر میں اچانک دنگا فساداور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا ۔ شاپنگ سینٹر کو بھی آگ لگادی گئی ۔ اس کے والد صاحب کی دکان بھی جل گئی ، کروڑوں کا نقصان ہوا۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ گزرتے وقت نے کسی حد تک تواس کے زخم بھردئیے مگراس کی روح کے زخم نہ بھرسکے۔ وہ نوکری کی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانتا تھالیکن جہاں بڑی بڑی ڈگری والوں کو کوئی نہ پوچھ رہا ہوں، وہاں کسی انٹرپاس کو کون ملازمت دیتا۔ آج اس کو اپنے والد صاحب کے الفاظ بہت بری طرح یاد آرہے تھے کہ کاش میں اپنے والد کی خواہش کا احترام کرلیتا تو یوں در در کی ٹھوکریں نہ کھاتا۔

آج میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتا۔ میرے بچے بھی یوں چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے نہیں ترس رہے ہوتے ۔ میری بوڑھی ماں دوا کیلئے میرا انتظار نہ کررہی ہوتی۔ آج اسے اپنی بے بسی پر بہت رونا آیا۔ وقت گزرگیامگر اس نے اپنی زندگی سے ایک سبق ضرور حاصل کرلیا کہ برے وقت میں انسان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ اسے پہلی بار زندگی کی حقیقت معلوم ہوئی ، سارے دوست یار جو اس کے آگے پیچھے ہوتے اور اس کا دم بھرتے تھے سب کے سب جاچکے تھے۔ جب بھی وہ اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا، اس کو مایوسی ، احساسِ ندامت اور پشیمانی کے سوا کچھ محسوس نہیںہوتاتھا۔اس نے سبزی کاٹھیلا لگا لیا۔ یوں اس کے گھر کا چولھاجلنے لگا۔ اس نے اپنے دل میں عہد کرلیا کہ حالات کچھ بھی ہوں، وہ اپنے بچوں کو تعلیم ضروردلوائے گا تاکہ اس کے بچے یوں چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے نہ ترسیں۔

اس نے سوچ لیا کہ وہ اپنے بچوں کیلئے محنت کرے گا تاکہ ان کو بہتر زندگی دے سکے ۔ بہت سے لوگ زندگی کے سفر میں مشکلات کا سامنا نہیں کرپاتے بلکہ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔مایوسی ان کو گھیر لیتی ہے لیکن اس کی بیوی نے اس کا ساتھ دیا جس سے نئی امید اور نیا حوصلہ اس کے اندر پیدا ہوا۔ اس میں جینے کی امنگ پیدا ہوئی ۔ وہ دوبارہ پورے حوصلے اور عزم کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔

شیئر: