سعودی مخالف مہم،خاشقجی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی
رضوان السید۔۔۔الشرق الاوس
دوسری قسط
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر تیل پر انحصار ختم کرنے کیلئے سعودی عرب میں اقتصادی نظام تبدیل کرنے کی جو مہم چلائی جارہی ہے اس سے عرب قومیت پسندوں ، اسلامی تحریکوں کے علمبرداروں اور یورپی ممالک کو کیا پریشانی ہے اور کیا دشواری ہے؟بڑی اقتصادی اور مالیاتی طاقتیں سعودی عرب کی اس تبدیلی کو بین الاقوامی اقتصادی نظام نیز سعودی عرب اور عالم عرب کے مستقبل کے حق میں سمجھ رہی ہیں اور اسے امید افزا نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس حوالے سے متضاد افکار و خیالات پڑھے بھی ہیں اور سنے بھی ۔ کسی نے بھی بنیادی سوچ کی بابت کوئی ٹھوس اعتراض ریکارڈ نہیں کرایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طرز معاشرت پر اثر انداز ہونیوالی اس بڑی تبدیلی سے بعض لوگ نالاں ہیں جبکہ دیگر اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ سعودی معاشرہ عرب اقوام میں سب سے زیادہ نوجوانوں اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ اس معاشرے کو تبدیلی کی اشد ضرورت ہے جس کے نقوش عظیم الشان تجارتی عمل کی صورت میں نمایاں ہونے لگے ہیں۔
پوری دنیا میں اس بنیادی اقتصادی و سماجی تبدیلی پر مباحثے ہورہے ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے ارباب اس کی بابت اظہار خیال کررہے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ سعودی عرب میں برپا ہونیوالی اقتصادی تبدیلی کی بابت تمام فریق صبر کا مظاہرہ کریں۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ صرف اقتصادی و تکنیکی پہلوؤں پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ سیاسی تبدیلیوں پر بھی صبردرکار ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں سعودی عرب کی بین الاقوامی اور عرب پالیسی سابق حکمرانوں سے مختلف ہے۔ مملکت نے کبھی کسی کے معاملے میں اس انداز سے مداخلت نہیں کی جس طریقے سے ان دنوں کررہی ہے۔ کئی عرب ملکوں میں سعودی عرب مختلف شکل میں نظر آرہا ہے۔ مملکت کو دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن ٹھوس انداز میں مداخلت کرنی پڑی۔ میری سوچ یہ ہے کہ 2001ء کے بعد ہی یہ طریقہ کار اپنایا جانا چاہئے تھا تاہم اُس وقت داخلی تدابیر پر انحصار کیا گیا۔ سعودی شہریوں کو دیگر ممالک میں لڑائی کیلئے جانے سے روکنے پر اکتفا کیا گیا۔ پھر چیلنج دھماکہ خیز ہوئے۔ عرب اور مسلم دنیا بلکہ بیرونی دنیا کے مختلف علاقوں میں شدت پسند ی اور انتہا پسندی کی مزاحمت ضروری ہوگئی۔ موجودہ رجحان ہی صحیح رجحان ہے۔ شدت پسندی ہمارے لئے پہلے بھی پُرخطرتھی ، آج بھی ہے ۔ ہم اس سے نمٹنے کا اہتمام کرتے رہیںگے۔ 2ہفتے قبل شامی پارلیمنٹ نے ایک قانون جاری کیا جس کے بموجب مذہبی اداروں میں الاخوان اور وہابیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔
کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب ، عرب بہار تحریک کا مخالف تھا۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جس کے حق اور مخالفت میں کافی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں تبدیلی کی ہمرکابی بھی کی، اسے تسلیم بھی کیا، مملکت نے جی سی سی ممالک کے ساتھ یمن میں آنے والی تبدیلی کو تشدد کی راہ پر چلنے سے روکنے کی کوشش کی۔سعودی عرب نے تبدیلی کی مخالفت نہیں کی۔ بغاوت کی تحریک کی مزاحمت کی کیونکہ یہ سعودی عرب ہی نہیں بلکہ عالم عرب کے امن کیلئے پُرخطر ہوگئی تھی۔
سعودی عرب نے مصر کے امن و استحکام، آگہی اور مفاد کی خاطر مصر کا ساتھ دیا۔ مصر کے بڑے دانشوروں کو شروع میں برا لگا لیکن اب وہی پوری قوت سے اس کی ہمنوائی کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عرب ممالک پر ایران کی لشکر کشی کو روکنے کیلئے سعودی عرب میدان میں نہ اترتا اور ایران کے خطرات کافی آگے بڑھ جاتے تو ایسی صورت میں ہم اس کی بابت کیا کہتے؟بہت سارے اسباب کے پیش نظر حرمین کے پاسبانوں ، عربوں اور مسلمانوں کے قائدین کو تنقید کا ہدف بنایا جارہا ہے۔ اس کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا تاوقتیکہ سعودی عرب اپنی اقدامی پالیسی ترک نہ کردے۔