روس کے یاقوتیہ علاقے سے نایاب نسل کے شیر کی باقیات دریافت
ماسکو - - - -روس کا جنوبی دورافتادہ علاقہ ایک عرصے سے اپنے سینے میں دفن طرح طرح کے آثار قدیمہ دنیا پر ظاہر کرتا جا رہا ہے اور اب ماہرین کی ایک ٹیم نے یہاں سے نایاب نسل کے شیر کا ڈھانچہ دریافت کیا ہے جسے کسی زمانے میں اسپارٹک کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچہ اس اعتبار سے بھی منفرد اور انتہائی اہم ہے کہ یہ انتہائی محفوظ حالت اور سالم شکل میں دریافت ہوا ہے جس کی وجہ سے بلاشبہ اسے انتہائی غیر معمولی دریافت قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ زمانہ قدیم کے جراسک پارک میں پائے جانیوالے گم گشتہ اور نایاب جانوروں کی کلوننگ زیادہ بہتر طور پر اور زیادہ یقین کے ساتھ کی جا سکتی ہے ۔ روسی اکیڈمی آف سائنسس نے دودھ پینے والے جانوروں پر تحقیق اور تجربات کیلئے بنائے گئے زولوجیکل انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر سائنسداں ڈاکٹر ایلکسی تیخونوف کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچہ زمانہ ما قبل تاریخ سے تعلق رکھنے والے غار سے ملا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے بدن پر خاص قسم کے ایسے نشانات ہیں جوعصری چیتوں کے بدن پر نظر آتے ہیں ۔دھبوں اور موٹی لکیروں کی شکل میں نظر آتے ہیں اس سے پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ زمانہ ما قبل تاریخ میں شیروں کی جلد پر بھی چیتوں جیسے دھبے اور نشانات ہوتے تھے مگر اس بات کو حتمی طور پر طے کرنے کیلئے ضروری ہے کہ نودریافت ڈھانچہ کی کلوننگ کی جائے اور پھر اس کی نسل کو آگے بڑھایا جائے ۔ ڈاکٹر تیخونوف کا کہنا ہے کہ تجربات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دریافت ہونیوالے ڈھانچے کی پشت پر واضح طور پر بڑے بڑے دھبے پڑے ہوئے ہیں جو مدھم ہو گئے ہیں مگر اب بھی نظر آتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ زمانہ قدیم میں مختلف غاروں کے اندر جو شیروں کی جو تصویریں اور خاکے بنائے گئے ہیں ان پر واضح طور پر دھبے پڑے نظر آتے ہیں ۔ ان تمام شواہد کی بنا پر یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے کے دیواری آرٹسٹوں نے اپنے عہد کے شیروں کی کھال پر جو دھبے دیکھے وہی اپنی تصویروں میں بھی نمایاں کر دئیے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی غاروں میں رہنے والے شیر بالعموم 3.9فٹ اونچے 6.9فٹ لمبے اور دم سمیت9.6فٹ لمبے ہوتے تھے ایسا ایک ڈھانچہ جرمنی سے ملا ہے ۔