سطام المقرن۔الوطن
انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے ایک فیصلہ جاری کر کے تسلیم کیا ہے کہ’’ پیغمبر اسلام () کی شان میں گستاخی اظہارِ رائے کی آزادی میں شامل نہیں ‘‘۔یہ فیصلہ آسٹریا کی اُس خاتون کے مقدمے کی بابت کیا گیا ہے جس پر مذہبی منافرت کا الزام ثابت ہو جانے پر جرمانہ کر دیا گیا تھا۔آسٹریا کی خاتون نے پیغمبر اسلام کے خلاف دشنام طرازی کی تھی ۔ خاتون نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں مذکورہ فیصلے کے خلاف اپیل دائرکی تھی ۔ عدالت نے واضح کیا کہ توہین رسالت سے تمام مسلمانوں کے خلاف اشتعال کو ہوا ملے گی ۔ مذہبی رواداری کے فقدان کا ماحول وسیع ہو گا۔ہرزہ سرائی اور بحث کے دوران ہمیں فرق کرنا پڑے گا۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعہ 19میں تحریر ہے کہ ’’ ہر شخص کو رائے اور اس کے اظہار کی آزادی حاصل ہے ۔ ہر فرد اپنے دین اور اپنے عقیدے کے اظہار کا حق رکھتا ہے ‘‘۔منشور ِمذکور کی دفعہ 18میں واضح کیا گیاہے کہ ’’ہر شخص کو فکر ، وجدان اور دین کی آزادی حاصل ہے ،اس حق میں دین یا عقیدے کا اظہار بھی شامل ہے‘‘ ۔
ان دونوں دفعات سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ مذہب اور عقیدہ انسان کا اٹوٹ حق ہیں لہٰذا کسی بھی انسان کے مذہب یا عقیدے کی توہین اس کے حقوق پامال کرنے کے قائم مقام ہے ۔ اس سلسلے میں نسلی تفریق اور مذہبی و نسلی امتیاز سب ایک درجے کے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مذاہب کی توہین فریقِ ثانی کے خلاف دشنام طرازی اور الزام بازی کے دائرے میں آجاتی ہے ۔ اسے انسانی اخلاق قبول نہیں کرتا ۔ یہ ایک طرح سے نسلی تفریق بھی ہے جس کے تحت ایک فرد یا گروہ غرور ،ذات یا نسلی فریب میں مبتلا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور توہینِ مذاہب سے بچنے کے مطالبوں کے درمیان توازن کس طرح پیدا کیا جائے؟ماضی میں لوگ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے ۔ ہر ایک اپنے مذہب کو برحق مانتا اور دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو اپنا دشمن گردانتا تھا ۔ دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی بابت یہ سوچ راسخ تھی کہ وہ اللہ کے دشمن ہیں، اللہ سے ان کا تعلق درست نہیں ۔ انسانیت سے عاری لوگوں کے ساتھ ہر سلوک روا ہے ۔ مثال کے طور پر یہودیوں کی سوچ تھی کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ۔ عسائیوں کی مذہبی کتابیں بتاتی ہیں کہ صرف وہی اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں ۔
مذکورہ تصور کے تحت بعض لوگ خود کو یہ حق دیتے ہیں کہ دیگر مذاہب اور ان کے پیروکاروں کو کسی درجے میں نہ رکھا جائے ۔ ان کے ساتھ دشنام طرازی میں کوئی خرج نہیں ۔ ان کے مذہب کی توہین پر کوئی قدغن نہیں ۔ عام طور پر اس طرح کے لوگ دیگر مذہب کی بابت یہ کہنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے کہ فلاں مذہب دہشتگردی کا علمبردار ہے اور فلاں مذہب کے پیروکاروں سے جانور زیادہ سمجھدار ہیں ۔ بعض یورپی ممالک اس قسم کی باتوں کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہیں ۔ توہین آمیز خاکے اس کا ٹھوس ثبوت ہیں۔ جہاں تک مذہبی عقائد پر تنقید اور توہین میں فرق کا معاملہ ہے تو بہت سارے لوگ اس باریک فرق کو سمجھ نہیں پاتے ۔