زاہداکرام رانا۔مدینہ منورہ
یہ اس دور کی بات ہے جب گریجویشن کے بعد نوکری کی تلاش میں صحافت بھی شروع کردی تھی۔ایک دوست کے اخبار میں چھوٹے موٹے انٹرویوز اور لوگوں کے مسائل پر لکھنے کا کام سونپا گیا ۔یہ 1985-86ءکی بات ہے ،جب ”کشمیر بنے گاپاکستان“ کا نعرہ بہت عام تھا۔تقریباً سارے پاکستان کی دیواریں اس نعرے سے رنگین تھیں ۔خاص طو پر اسکولوں کی تو چاندی تھی۔اس نعرے پر لوگوں کے جذبے کو گرمایا جاتا تھا ،بچے بچے کی زبان پر کشمیر بنے گاپاکستان ،ہم لے کے رہیں گے کشمیر ،کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے وغیرہ جیسے نعرے ہوتے تھے۔
ہمیں تحریک کشمیر کے ایک سرکردہ رکن کا انٹریو کرنے کا کام سونپا گیا۔نام میرے ذہن سے محو ہو گیاہے، خیر میں اپنے ایک دوست جس کو ہائیکنگ یعنی ”کوہ پیمائی“کا شوق تھا ، انہیں ساتھ لے لیا تاکہ کمپنی بھی رہے۔ مظفر آباد پہنچے ،تھوڑا آرام کرنے کے بعد صاحب کو ڈھونڈنے نکلے ۔اس وقت موبائل کی سہولت نہیں تھی، صرف ٹیلیفون ہی تھے ،وہ بھی عام نہیں تھے۔خیرفون کرنے پر پتہ چلا کہ موصوف وادی لیپہ میں ملیں گے۔اب اس طرف کا سفر کٹھن اور مشکل تھا ،دوسرے جس روڈ سے سفر کرنا تھا اس کے اوپر پہاڑوں پر انڈین آرمی کی کمین گاہیں تھیں ۔ان کا جب دل کرتا فائر کھول دیتے ۔ آئے دن کئی بے گناہ شہری ان کی اس بے معنی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔لوگوں نے کافی ڈرایا کہ نہ جائیں کل ہی انہوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجہ میں آبادی کا ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا ۔
خیر دل میں خوف تو آیا مگر دل مضبوط کرکے ہم روانہ ہو گئے ۔وادی لیپہ میں بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچے،تو پتہ چلا وہ تھوڑی دیر قبل وادی نیلم کی طرف کوچ کر گئے ہیں۔ دوبارہ ہم واپس ہوئے ۔وادی نیلم جا کر اترے ۔ایک ڈھابے سے کھانا کھایا۔ ریسٹ ہاﺅس، آزاد جموں وکشمیر کا پتہ پوچھا جس میں وہ صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔پتہ چلا کہ وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس پر ہائیکنگ کرتے ہوئے جانے کا پروگرام بنا۔ بہر حال گرتے پڑتے اوپر پہنچے ۔راستے میں بارش بھی ہوگئی جس میں ہم بری طرح بھیگ چکے تھے۔ مہینہ تو جولائی کا تھا مگر وہاں خاصی ٹھنڈ تھی۔چوٹی پرپہنچتے پہنچتے اندھیرا چھاگیا تھا۔ریسٹ ہاﺅس میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا مگر انہوں نے باہر لان میں ٹینٹ بھی لگار کھے تھے۔ ایک ٹینٹ میں ہمیں بھی جگہ مل گئی۔ ان صاحب سے اس وقت ملنا مناسب نہیں تھا چنانچہ ہم چینج کرکے اپنے ٹینٹ میں آگئے۔
بارش میں بھیگنے کی وجہ سے رات کومیری طبیعت خراب ہوگئی۔میں نے پیناڈول لی جس سے صبح تک کیفیت قدرے بہتر ہوئی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ان صاحب کو ڈھونڈا ۔یہ ان کی مہربانی تھی جو انہوں نے 10 منٹ کا ٹائم دیا۔باہر لان میں چائے کا کپ ختم ہونے تک جو چند باتیں ہوئیں ،ان میں سے جو خاص بات انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ” کشمیر بنے گا خودمختار۔“
موصوف کے مختصر سے انٹرویو کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ کشمیری علیحدگی پسند یا حریت پسندمجاہدین اپنی آزادی کی جنگ پاکستان سے الحاق کیلئے نہیں لڑ رہے بلکہ وہ اپنی آزاد، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے برسرپیکار ہیں ، وگرنہ تو وہ انڈیا کے ساتھ چاہے زبردستی ہی سہی ،الحاق میں تو ہیں۔ اس بات کی تائید اس وقت ہوئی جب میں روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک آیا۔ پردیس میں کھانے کی پرابلم پیش آئی۔ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لہٰذا آزاد کشمیر سے ایک گروپ جو میرے ساتھ والے فلیٹ میں رہتا تھا ،ان کے ساتھ ہانڈی والی یعنی اکھٹا کھانا، پکانا،کھانا کر لیا ۔
اکثر ویک اینڈ پر ان کے کشمیری دوست آتے تھے تو میرا تعارف یہ کہہ کر کروایا جاتا تھا کہ جی یہ ہمارے دوست زاہد صاحب پاکستان سے ہیں۔میرے استفسار پر کہ آپ بھی تو پاکستان سے ہیں ،وہ کہتے کہ جی جی ہم بھی کشمیر، پاکستان سے ہی ہیں۔
ہمارے ایک سیاسی رہنما کتنے ہی برس کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہے ، اس کے باوجود ایک لفظ وہ کشمیریوں کے لئے نہیں بولے اور نہی ہی کسی فورم پر انہوں نے ان کے حقوق کے کوئی جد و جہد کی ۔بس اتنے سال حکومتی اخراجات پر عیش کرتے رہے ۔
پاکستان کی ایک پارٹی ”جماعت اسلامی“ ایسی ہے جس نے کشمیریوں کے حقوق کی جنگ شروع دن سے لڑ ی ہے۔ہر سال 5 فروری کو پاکستان میں کشمیر ڈے اور ریلیوں کا انعقاد بھی انہی کا مرہون منت ہے جس دن پاکستانی حکومت اور عوام کشمیر کی آزادی کا مطالبہ اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں بالکل اسی طرح 27اکتوبر” یوم سیاہ “ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب راجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر کوہندوستان کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان نے وادی میں اپنے فوجی اتارے اوراس جنت ارضی پر قابض ہوگیا۔
رواں برس پاکستان ایمبیسی، ریاض میںکشمیر کا ” یوم سیاہ“ منایا گیا۔ ہمیں بھی شرکت کی دعوت ملی مگر کچھ مصروفیت کے باعث شرکت نہ ہو سکی جس کا افسوس رہے گا لیکن ا س کی کوریج مل گئی تھی۔
کشمیر میں ہندوستانی سربریت کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱یک لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید اور تقریباً7 لاکھ سے زیادہ زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں۔بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کا سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔سفاکیت اورظلم کے یہ مظاہرے روز لوکل اور انٹرنیشنل ٹی وی چینلز پر دکھائے جاتے ہیں ،جنہیں دیکھ کر ہر انسان کا دل پسیج جاتا ہے مگر عالمی ادارہ برائے حقوق انسانی کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ اس دفعہ موجودہ حکومت پاکستان نے کشمیریوں کے حقوق کی آواز اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے اٹھائی ہے جس کا اثر تو ماضی کی طرح ،شاید ہی دیکھنے کو ملے کیونکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہے نہ کے ہندوﺅں کا۔
آپ دیکھ لیں، دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کا قتل عام اور ظلم سربریت کا بازار گرم ہے،وہاں کے بارے میں کسی بھی عالمی فورم پر نہ تو اس کی مذمت کی جائے گی اور نہ ہی اس مسئلے کے حل کے بارے میں کوئی کوشش دیکھنے ملے گی۔ پاکستانی عوام کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے ہمیشہ آواز اٹھاتے رہیں گے اور ان کی اخلاقی و سفارتی حامیت جاری رکھیں گے ۔ ہمیں اُمید ہے کہ کشمیر جلد آزاد ہوگا ۔ آزادی کے بعد یہ کشمیریوں کی مرضی ہے کہ وہ چاہیں تو پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور چاہیں توالگ رہیں،دونوں صورتوں میں کشمیرکی حکومت اورکشمیریوں کی وارفتگی پاکستان کے ساتھ قائم رہے گی اس امید کے ساتھ کہ:
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہوگا
رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہوگا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو