Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا ’’اورنگی ٹاؤن‘‘روہنگیا مسلمانوں کا مسکن

مکہ مکرمہ کے پہاڑوں پر آباد ان مسلمانوں کو سعودی عرب نے نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں خصوصی اقامہ بھی دیا،تمام ہی لوگ میانمار میں اپنے بھائیوں پر ظلم وستم سے پریشان ہیں

 

رپورٹ اور تصاویر:مصطفی حبیب صدیقی

پاکستان کے شہر کراچی کے رہنے والے تواورنگی ٹائون سے واقف ہی ہونگے،پتلی پتلی گلیاں،تنگ راستے،چڑھائی اور کٹی پہاڑی،مچھلی مارکیٹ میں تو پان چھالیا بھی دستیاب لیکن آج ہم آپ کوسعودی عرب کے ’’اورنگی ٹائون‘‘ میں لئے چلتے ہیں ۔مکہ میں حرم کے نزدیک قائم روہنگیا مسلمانوں کی بستیاں جہاں مملکت کی دریادلی کا مظہر ہیں وہیں اپنے اندر کئی داستانیں بھی چھپائے رکھتی ہیں۔ برطانوی سلطنت سے برما کی آزادی کے بعد اراکان کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو برما نے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کیااور مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے تو سعودی عرب نے مسلمان کے ایک جسم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اراکان کے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کونہ صرف اپنے ہاں پناہ دی بلکہ انہیں خصوصی اقامہ دے کر ممتا ز بھی بنایا۔

جسٹس پارٹی روہنگیا کے جنرل سیکرٹری سلیم عبداللہ کلوعشرہ سے ہمارے ساتھ روانہ ہوئے تو راستے میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ہی زیربحث رہے تاہم اس وقت میرا مقصد ا س دنیا کو دریافت کرنا تھا جو مکہ کے مضافات میں 110میٹر کی بلندی پر پہاڑیوں پر آباد ہے۔سلیم احمد ہمیں روضیفہ کی بستی خالدیہ الظہور لے گئے جہاں ہمیں نوجوان سماجی کارکن عبدالرحمن یوسف نے بھی جوائن کرلیا۔رصیفہ سے دائیں جاکر آباد یہ بستی زمین سے کئی فٹ نیچے اور پھر پہاڑ کے اوپر آباد ہے۔پہاڑی پر چڑھتے ہوئے جب آبادی میں پہنچے تو وہاںکی دنیا ہی الگ تھی۔

ایک لمبی ’’سرنگ ‘‘ نما گلی میں داخل ہونے سے پہلے کونے پر ہی ہماری نظر ایک صاحب پر پڑی جن کے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ خبریں سن رہے تھے جبکہ ان کے چہر ے پر شدید افسردگی چھائی تھی۔میرے پوچھنے پر انہوں نے اپنا نام رستم علی عبدالکریم بتایا ،کہنے لگے کہ روہنگیا سے خبریں مل رہی ہیں ابھی ابھی برمی فوج نے بستی منگڈو کا محاصر ہ کرکے مسجدیں شہید کرنا شرو ع کردی ہیں،گھر وغیرہ بھی گرارہے ہیں۔انہوںنے بتایا کہ کیونکہ اراکان میں مسلمان میڈیا پر پابندی ہے ا س لئے ہمیں آزاد میڈیا سے خبریں نہیں ملتیں مگر مسلمانوں نے ایک گروپ بنایا ہے جس کے ذریعے ہمیں خبریں مل جاتی ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں اورویڈیو شیئر کرتے ہیں۔رستم علی ہمیں روہنگیا بستی کے ’’بی بی سی‘‘ لگے۔

رستم علی صاف اردو نہیں بول پارہے تھے اس لئے ہمیں ترجمانی کی ضرورت پڑی اور سلیم عبداللہ نے نہایت احسن انداز میں سے نبھایا۔اس موقع پر مولانا جلال بھی پہنچ چکے تھے۔انہوںنے بتایا کہ رستم علی ہمیں باخبر رکھتے ہیں ۔ان کا اور کچھ اور لوگوں کو روہنگیا میں مسلمانوں سے رابطہ ہے۔جس کے ذریعے وہاں کی خیریت ملتی رہتی ہے۔ سرنگ نما گلی میں گئے تو وہ اترائی کی طرح تھی،بل کھاتی اور دونوں اطراف میں دکانوں کے ساتھ اس گلی میں مچھلی،مرغی،دالیں ،سبزی کے علاوہ پان چھالیاں بھی فروخت ہورہاتھا جبکہ ساتھ ہی حجا م او ر کھلونوں کی دکانیں بھی آباد تھیں،گلی میں ریسٹورنٹ بھی تھا جبکہ برگر پوائنٹ بھی ملا۔کوشش تو یہ تھی کہ یہ معلوم کریں یہ لوگ یہاں کب سے آباد ہیں اور کیسے رہتے ہیںمگر لوگوں کے پاس اراکان سے دل دہلادلانے والی داستانیں تھیں۔ہماری ملاقات نور عالم سے ہوئی جو اسی گلی میں پان چھالیا فروخت کررہے تھے۔کہنے لگے کہ برمی فوجیوںنے روہنگیا میں چچا زاد بھائی کو شہید کردیا،ہم ناشویور کے رہنے والے ہیں،تایا لاپتہ ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔وہ عرصہ 10سال سے یہاں آباد ہیں۔پہلے تو مہینے میں رابطہ ہوجاتا تھا مگر اب تو وہاں رشتہ داروں سے کئی ماہ سے رابطہ نہیں ہورہا۔ڈیڑھ مہینے بعد بھانجی سے رابطہ ہوا تو رشتہ داروں کی خیریت ملی۔

نور عالم کے 11بچے ہیں،7تو یہیں سعودی عرب میں ہیں باقی 4بیٹیاں پاکستان میں بیاہی ہیں۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ محمد قمر اللہ آگئے کہنے لگے کہ میرے تایا زاد بھائی،چچا ،سسر اور دیگر رشتے دار قتل کردیئے گئے جبکہ ایک لڑکا لاپتہ ہے۔وہ روہنگیا کے منگلو کے رہائشی تھے۔مولانا جمال حسین ایک سماجی کارکن ہیں ان سے بات ہوئی تو ان کا شکوہ تھا کہ ہم روہنگیا مسلمانوں کی اس پریشانی اور اتنے مظالم کی بڑی وجہ عصری تعلیم کی کمی ہے۔روہنگیا نوجوانوں کو عصری تعلیم کی طرف آنا چاہئے۔سلیم عبداللہ نے بتایا کہ مکہ میں ایک لاکھ 90ہزار وہنگیا مسلمان آباد ہیں جبکہ جدہ اور مکہ مکرمہ میں کل 2لاکھ 50ہزار روہنگیا مسلمان ہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کی خواتین گھر سے باہر جاکر کام نہیں کرتیں ،پردے کی بہت سخت ہوتی ہیں،خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر برما میں بدھسٹ حکومت نے برقعے پر پابندی عائد کررکھی ہے جس کی وجہ سے اب وہاں مسلمان خواتین بغیر برقعے رہنے پر مجبور ہیں ورنہ ان کے ساتھ مزید ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔

روضیفہ الخالدیہ میں سلیم عبداللہ ہمیں ایک مدرسے میں بھی لے گئے جو مملکت کے تعاون سے جاری ہے جس میں درجنوں روہنگیا بچے زیرتعلیم ہیں۔اب یہ بچے اپنے وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔روہنگیا خواتین تو ایشیائی خواتین کی طرح یہیں مملکت میں رہنا چاہتی ہیںتاہم مرد اپنے آبائی علاقوں میں لوٹنا چاہتے ہیںجہاں ان کی مٹی کی خوشبو انہیں کھینچتی ہے مگر برمی حکومت کے مظالم انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ ٍ مکہ مکرمہ میںروہنگیا کی دوسری آبادی نکاسہ ہے جس کے ساتھ بہت اچھی مارکیٹ بھی ہے جس میں تمام ہی روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی دکانیں ہیں۔ وہاں پہنچے تو روشنیوں کا شہر آباد تھا،روہنگیا مسلمانوں کی دکانوں پر کافی ہجوم تھا۔بات چیت شروع کی اور سوال کیا کہ بھئی پہاڑی پر یہ پانی وغیرہ کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟انہوں نے بتایا کہ پہاڑی پر پانی وغیر ہ کا اچھا انتظام ہے تاہم کبھی کبھار مشکل پیش آتی ہے۔چھوٹے چھوٹے مکان ہیں ،عموماً چیزیں پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ہی مل جاتی ہیں تاہم کچھ سامان کیلئے نیچے آنا ہوتا ہے۔

پہاڑ پر جانے کیلئے باقاعدہ سیڑھی بنائی گئی ہے۔ نوجوان عبدالرحمن بھی سارے راستے ہمارے لئے گائیڈکے فرائض انجام دیتا رہا۔عبدالرحمن کی عمر35سال ہے مگر یہ سن کر ہم دنگ رہ گئے کہ اس کے ماشاء اللہ6بچے ہیں اس کی شادی21سال کی عمر میںہوگئی تھی۔عبدالرحمن نے بتایا کہ روہنگیا قوم میں لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادیاں عموماً16سال سے20سا ل کی عمر کے درمیا ن کردی جاتی ہے۔عبدلرحمن کہنے کو تو ایک نوجوان ہے مگرشائد حالات نے اسے بہت زیادہ سمجھدار اور حکمت سے بھرپور بنادیا ہے۔بتانے لگا کہ وہ یہاں روہنگیا نسل کے ان مسلمانوں کی مدد کیلئے کوششیں کرتا رہتا ہے۔مختلف پروگرامات بھی منعقد کرتا ہے تاکہ اس کے لوگ اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے آگا ہ ہیں۔عبدالرحمن نے بتایا کہ وہ جلد ہی کسی جگہ پر روہنگیا کے ان بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کرے گا جس کیلئے مختلف لوگوں سے بات چیت جاری ہے۔ روضیفہ میں ہماری ملاقات ایک دکاندار سے ہوئی جن کے بیوی او ر بچوں کو اراکا ن میں برمی فوج نے قتل کردیا ،وہ اب تنہا رہ گئے۔ ان کی دکان تو بند تھی تاہم شاید اب دماغ بھی کام نہیں کررہا تھا۔وہ اس دنیا میں تنہا رہ گئے تھے جبکہ اپنے پیاروں کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکے تھے۔

ایک صاحب نے بتایا کہ یہ دکاندار اپنی بیوی بچوں کی موت پر اتنا غمزد ہ ہے کہ اب بولنا ہی چھوڑ دیا ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے بیوی بچوں کی لاشیں دفنائی بھی گئیں ہیں کہ نہیں۔ پہاڑی سے نیچے اتر رہے تھے تو روہنگیا نسل کے مملکت میںپیدا ہونے والے بچے ملے جو مدرسے سے پڑھ کر آرہے تھے۔یہ بچے اراکان کے بارے میں تو زیادہ نہیں جانتے تاہم جب ہم نے سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اراکان میں کیا ہورہا ہے تو ان کے چہروں پر غصہ واضح تھا ،ایک بچہ کہنے لگا کہ ہاںوہاں ہمارے لوگوں کو ماررہے ہیں ہم بھی انہیں ماردیںگے۔ان بچوں کی معصومیت میں غصہ دیکھ کر یقینا افسوس ہوا تاہم یہ خوشی ہوئی کہ ہمارے بچے مملکت کی مہربانی سے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ سلیم عبداللہ نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہماری موجودہ نسل روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے آگا ہ رہے۔اسی لئے ہم مختلف پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں جبکہ گھروں میں بھی انہیں اپنے آبائواجداد پر ہونے والے مظالم اور حالیہ مظالم سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ مملکت میں آباد روہنگیا کے مسلمان سعودی عرب کی حکومت کے مشکور ہیں جنہوںنے ان کو مظالم سے نجات دلائی ہے۔ روضیفہ میں جب ہم ایک دکان پر رکے تو روہنگیا کے ان بچوں کا بھی ہجوم لگ گیا جو حیرت سے ہماری طرف تک رہے تھے۔

ہم نے ان سے بھی گفتگو شروع کی تاہم ان میں سے اکثریت کچھ بول نہیں پائی البتہ وہاں موجود بڑوں نے ان کی ترجمانی کی۔ایک دکاندار نے آواز دے کر ہمارے ’’گائیڈ‘‘ سلیم عبداللہ کو بلایا اور کہا کہ انہیں بتائو کہ وہاں ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ یہاں موجود ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اس کی ہم بھرپور انداز میں روہنگیا مسلمانوں پر آنگ سانگ سوچی کے مظالم عیاں کردیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ پہلے اراکان سے ہم لڑکیوں کو شادی کرکے یہاں مملکت میںلے آیا کرتے تھے جس سے کافی کی عزت وآبرو محفوظ ہوگئیں تاہم اب موجود ہ حالات میں ایسا ممکن نہیں۔ہمارے کتنے ہی نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ وہاں کی لڑکیوں سے شادی کریں اور یہاںلاکر عزت کی زندگی گزاریں مگر وہاں کی حکومت کی ایسی پابندیاں ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ پہاڑ پر موجود گھروں میں بجلی وپانی کی سہولت میسر تھی جبکہ اشیاء خوردونوش بھی دستیاب تھا تاہم یقینا اپنے ملک میں نا رہنے کی وجہ سے جو مسائل ہوتے ہیں وہ شائد ان لوگوں کو زیادہ جھیلنے پڑ رہے ہیں۔مکہ میں آباد روہنگیا نسل کے یہ مسلمان مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں جن میں مچھلی اور مرغی کی دکانیں اور دیگر چھوٹے موٹے کام ہیں۔ عبدالرحمن کے گھر پہنچے تو وہاں ان کی بچیاں لیپ ٹاپ پر بیٹھی اپنے ہی علاقے کی تصاویر دیکھ رہی تھیں۔چھوٹی چھوٹی بچیوں کے چہرے پر خوف کا سایہ تھا تاہم مملکت میں مقیم رہنے کا اطمینان بھی تھا۔ سعودی حکومت نے حال ہی میں تارکین وطن پر نافذ کئے گئے نئے ٹیکسوں سے بھی روہنگیا مسلمانوں کو استثنیٰ دیا ہے۔یہ مسلمان سعودی حکومت کے بڑے مشکور ہیں تاہم جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آنگ سانگ سوچی کی حکومت سے کیا چاہتے ہیں ؟تو انہوںنے بتایا کہ ہم برمی حکومت کے زیرسرپرست ہی رہنا چاہتے ہیں،مگر صرف یہ مطالبہ ہے کہ اراکان ریاست کو بھی حقوق دیئے جائیں۔ہمارے بچوں کو تعلیم وصحت کی سہولت میسر ہو۔ رات گئے سلیم عبداللہ اور عبدالرحمن یوسف نے ہمیں رخصت کیا۔ ابھی کافی کچھ باقی تھا تاہم آئندہ کا کہہ کر ہم چلے آئے۔

شیئر: