عمران کے لئے ”یوٹرن“ مصیبت بن گیا
کراچی (صلاح الدین حیدر) پی ٹی آئی یا تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے دن سے ہی مشکلات سے سابقہ پڑا۔ ایک قسم کا امتحان تھا جو آج تک قابو میں نہیں آسکا۔ کچھ اچھے کام بھی ہوئے لیکن2 غلطیاں بہت بھاری پڑ گئیں۔ آج تک عمران کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں لیکن جب کوئی خود اپنے ہی جال میں پھنس جائے تو نکلنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی عمران کے ساتھ ہوا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے انتخاباتی مہم کے دوران اتنے زیادہ وعدے وعید کر لئے کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ سارے وعدے مہیب سائے کی طرح اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے۔ خلاصہ اگر بیان کیا جائے تو دو باتیں صاف نظر آتی ہیں، ایک تو عمران کے اپنے بیانات کہ وہ صرف اپنے ہی ورکرز پر انحصار کرینگے مگر آئی ایم ایف یا دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے مگر جب سر پر پڑتی ہے تو دن میں بھی تارے نظر آنے لگتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نئی انتظامیہ قائم کریں گے لیکن جیسے جیسے الیکشن قریب آتے گئے۔ عمران 22 سال کی جدوجہد کے باوجود اپنے الفاظ پر قائم نہیں رہ سکے، خود انہی کے الفاظ میں کہ الیکشن انہیں لڑایا جاتا ہے جنہیں اس کی سینس معلوم ہو۔ مطلب کسی ناتجربہ کار کو قومی انتخابات میں ٹکٹ دینا ان کی تمام محنتوں اور کاوشوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔جہانگیر ترین، اعظم سواتی اور نہ جانے کون کون سے لوگوں کو پی ٹی آئی کے امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا گیا لیکن خواب تو پورے ہوئے۔ عمران نے پنجاب میں شریف برادران کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج برسراقتدار ہیں۔ خود وزیراعظم ہیں اور پنجاب میں بھی ان ہی کی حکومت ہے۔ کے پی کے میں تو پہلے سے ہی انہیں ہیرو کا مقام حاصل تھا۔ نتیجتاً 2013 کی 33 نشستوں کی جگہ 2018ءمیں انہیں 2 دہائی کی اکثریت حاصل ہوگئی لیکن عمران کو جو چیز سب سے زیادہ مشکل نظر آئی وہ تھی ان کے اپنے ہی الفاظ۔ اپوزیشن کو تو جیسے آسمان سے ٹپکا ہوا موقع گود میں آگرا۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ نے تو انہیں ہٹلر سے تشبیہہ دے دی۔ سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کب چپ رہنے والے تھے، دعویٰ کردیا کہ دیکھ لینا ”یوٹرن“ کو اچھا کہنے والے اپنے ہی بیان پر یوٹرن لے گا۔ شہباز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری کیوں پیچھے رہتے۔ قدرت نے انہیں انمول موقع فراہم کردیا تھا۔ عمران پر ہر طرف سے تنقید کی بارش ہونے لگی۔ ٹی وی چینلز پر تبصرہ کرنے والے بھی عمران کے خلاف نظر آئے۔ یہی نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا، عمران نے ایک نہیں کئی ایک باتوں پر ”یوٹرن“ لیا، یہاں تک کہ نون لیگ کی مریم اورنگزیب نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا، ہر بات پر ”یوٹرن“، کیا اسے ہی حکومت کہتے ہیں۔ عمران کا دعویٰ کہ خودکشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس قرضوں یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں پسند کریں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ حقیقت حکومت میں آنے کے بعدہی اپنی اصل شکل میں نظر آتی ہے۔ مسائل کے مہیب سائے ان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے، اب کیا کریں؟ وزیر خزانہ اسد عمر کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کرنا ہی پڑا۔ خود وزیراعظم بھی قائل نظر آئے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہی پڑے گا، اب دیکھیں صورت کیا ہوتی ہے؟ شکل کیا ہوں گی؟ بجلی کی قیمتیں، روپے کی قدر میں کمی، سب کچھ ہی کرنا پڑے گا۔ کئی لوگ تو آئی ایم ایف کو شیکسپیئر کے ڈرامائی کردار شائیلاک جو کہ انسانی جسم کا کوئی بھی حصہ اور خون کے آخری قطرے تک سود وصول کرنے کے لئے روکے نہیں رُکتا تھاقرار دیتے ہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ اس لئے کہ پچھلے کئی دہائیوں سے پاکستان کو آئی ایم ایف سے مصیبتوں کا سامنا رہا ہے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے قرضے لینے کے لئے عمران نے دورے کئے ، کوئی سہارا بھی نہیں تھا، بحران میں پھنس چکے تھے، نکلنے میں ہی عافیت تھی، سو ہر بات ماننا پڑی۔ چین نے ایک ارب ڈالر مرکزی بینک، اسٹیٹ بینک میں جمع کرادیئے ہیں لیکن ان سب سے مسائل آسان تو ہوجائیں گے لیکن مکمل طور پر قابو میں نہیں آئیں گے۔ دوسری طرف عمران کو خوشی ہے کہ اس نے 70 سال پرانے قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنانے کے لئے مثبت اقدامات کئے ۔ جلد یہ علاقہ حکومت پاکستان کا حصہ بن جائے گا، جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ۔ کچھ وقت لگے گا لیکن یہ حل ہوجائے گا مگر دوسری طرف عمران کے ساتھیوں نے قومی اسمبلی میں کچھ ایسا تلخ ماحول پیدا کردیا جہاں فواد چوہدری اور خورشید شاہ یا دوسرے لوگوں سے محاذ آرائی روز کا معمول بن گیا ۔ بالآخر عمران کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کرنا پڑی۔ ممکنہ معاملات حل ہوجائیں گے چونکہ حکومتی پارٹی شہباز شریف کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سربراہی دینے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے اپوزیشن نے باقی ماندہ کمیٹیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ جب تک یہ کمیٹیاں نہیں بنتیں حکومت کوئی بھی قانون ایوانِ زیریں میں نہیں لاسکتی۔ظاہر ہے کہ اسمبلی جس کام کے لیے منتخب ہوئی وہ غیرفعال ہوکر رہ گیاہے۔ اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ عمران کو اپنی ٹیم میں چند تبدیلیاں کرنا پڑیں گی ورنہ ان کے لئے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔