وہ سب غایتوں کے غایت اولیٰ تھے، وہ رحمتہ للعالمین تھے ،وہ ختم المرسلین تھے، وہ ابد تک انسانیت کیلئے رہنما و معلم ہیں
* *مولانا قاری شبیر احمد عثمانی۔ پاکستان* *
ایک مسلمان بشرطیکہ وہ توحیدو رسالت کے بارے میں اسی طرح ایمان رکھتا ہے جس طرح کہ قرآن پاک نے اس سے مطالبہ کیا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ انسان نے اپنی زبانوں کے جتنے لغت بھی مرتب کیے ہیں اور آوازوں کے جتنے بھی اظہار موجود ہیں، ان سب کے احسن و جمیل الفاظ جمع کر لیے جائیں تو بھی حضور کی سیرت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ ایک بشر، خیر البشر آپ کی تعریف ہی نہیں کر سکتا پھر انسان کی تعریف ہی کیا؟
جب اللہ تعالیٰ نے اس محسن انسانیت کی تعریف کی ہے اور حضور پر اپنی نبوتوں کا سلسلہ ختم کر کے دین ابرہیمی کو آخری دین قرار دیا اور فرمادیا کہ محمد کی معرفت ہمیں اکمل و کامل نظام ِ حیات دے دیا گیا ہے، گویا جس خالق نے حضور کی فضیلت و عظمت کی اپنی زبان میں اظہار کردیا ہو، اس کے احسن و اکمل و اجمل ہونے پرمخلوق کیا کہہ سکتی ہے؟ حضور کی سیرت ہی ایک ایسی عظیم سیرت ہے جہاں زبان و نطق کا ذخیرہ عاجز ہو جاتا ہے۔ہم سے پہلوں نے حضور کے بارے میں تاریخ سے لے کر ادب تک کے میدانوں میں اتنا کچھ کہا کہ اب اس میں مزید اضافہ نہیں ہو سکتا البتہ یہ ضرور ہے ہم لوگ حضورکی سیرت بیان کر کے اپنے لیے سعادت و فلاح کے مواقع پیدا کرتے اور اس تذکرے سے اپنی روح کے لیے طمانیت، اپنے دل کیلئے روشنی اور اپنے دماغ کیلئے کشادگی پاتے ہیں۔میں یہی محسوس کرتا ہوں کہ جب بھی مجھے اس موضوع پر بولنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے میں نے اپنے نفس کو علو پایااور اپنے خون میں اس کی گردش کے ساتھ ایک لطافت محسوس کی جو بیان نہیں ہو سکتی لیکن محسوس ضرور ہوتی ہے اور جب محسوس ہوتی ہے تو دل و دماغ کی کائنات مختلف ہوتی ہے جس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو علم کے بجائے عشق اور عقل کے بجائے آرزوں کی لذتوں سے آشنا ہیں۔
مجھ سے پہلے جن علمائے کرام نے سیرۃ کے اوراقِ مطہرہ پیش کیے ہیں،میں ان سے بھی اورا س کے ساتھ کالج کے فاضل اساتذہ سے بھی حتیٰ کہ طلبہ کے ساتھ فکر و نظر کے جو لوگ بیٹھے ہیں یہ سوال ایک استفسار کے طور پر کرنا چاہتا ہوں کہ سیرت النبی کا مضمون وہی رہ گیا ہے جو آپ لوگ بیان کرتے اور پڑھتے یا پڑھاتے ہیں۔ پھر جس پر مسجدوں میں عموماً لب کشائی ہوتی ہے یا جس وقت آپ حضور کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ سرور کائنات تھے وہ محسن انسانیت تھے وہ فخر موجودات تھے۔
وہ سب غایتوں کے غایت اولیٰ تھے، وہ رحمتہ للعالمین تھے وہ ختم المرسلین تھے۔ وہ ایک ایسے نظام حیات کے داعی تھے جو ازل سے ابد تک انسانیت کیلئے رہنما و معلم ہے، تو محض یہ الفاظ ہی کافی نہیں۔آپ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان الفاظ کے مطالب کے حقیقتوں کا اظہار اپنے معاشرے کے وجود سے کریں۔ زمانہ آج اس نہج پر آ گیا ہے کہ وہ علم کی اتھاہ اس کے عمل میں تلاش کرتا ہے۔ نئی تعلیم نے انسان کو نئی نئی راہوں پر گامزن کر دیاہے اور وہ اس تلاش میں ہے کہ جو کچھ زبان کہتی ہے نفس اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ جس طبقے کے ہاتھ میں اس وقت مذہب کی باگ دوڑ ہے منبر و محراب کی تمام گر م جوشی کے باوجود معاشرے میں مقتدر نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندگی بسر کر رہا ہے۔
اگرآپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے جیسا کہ ہم سب اس عقیدہ پر روح کی گہرائیوں کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام ہی دینِ کامل ہے اور حضورکی سیرت ہی ہمارے لیے مثالی نمونہ ہے تو یہ سوال جائز طور پر نئے معاشرے کی فضائے دانش و علم سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے زبانی جمع خرچ کے سوا کبھی اس کے لیے جدوجہد کی اور آج تک اپنے وجود و معاشرہ پر اس کا اطلاق کیا؟کتنے لوگ ہیں مقتدر کہلانے کے باوجود اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ قرآن کے نظام کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ پیش کریں اور اس معاشرہ میں نافذ کریں جو قرآن و اسلام کے نام پر قائم تو ہوا لیکن جہاں قرآن و اسلام کے نام پر ابھی تک تجربے ہی ہو رہے ہیں اور ان کی عمر اتنی دراز ہے کہ ان لوگوں کی ہمتوں سے اس زلف کے سر ہونے کا سوال ہی خارج البحث ہے۔
جو لوگ مسند رسول کے وارث کہلاتے ہیں، جنہیں اپنے علماء ہونے پر اصرار ہے اور جن کے دماغوں میں یہ بات نقش ہو کر بیٹھی ہے کہ وہ رسول اللہکے جانشین ہیں، وہ اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر سامنے آ سکتے ہیں کہ ان کی زندگیاں سرورکائنات کی سیرۃ طیبہ کا عکس ہیں یا ان میں کوئی خوبی اس سیرت اقدس کی پائی جاتی ہے۔ اسلام یہ نہیں کہ ظواہر کی پرستش کی جائے۔ اسلام یہ نہیں کہ منبر رسول و قال اللہ وقال الرسولؐ کا غوغا بلند کیا جائے اور اپنی زندگیاں قال اللہ اور قال الرسولؐ کی نفی پر ہوں۔
علمائے کرام کا یہ شعار ہو گیا ہے کہ وہ عقائد کی مین میخ میں لگے رہتے یا عبادات کے ظواہر پر زور دیتے ہیں۔ عقائد کی درستی شرط اول، عبادت سے انکار کفر، لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام محض اعتقادات و عبادات ہی کا نام ہے یا معاملات بھی اس کے نظام حیات کے جزو اعلیٰ ہیں۔ جو شخص معاملات میں خراب ہوگا وہ اعتقادات یا عبادات میں کبھی دیانت دار نہیں ہو سکتا۔
حدیث رسول پر زور دینے والے علماء کا فرض ہے کہ سنت رسولکا حق بھی ادا کریں۔ کیا سنت رسول صرف یہی ہے کہ حضور نمازیں کس طرح ادا کرتے تھے۔ حضور لباس کس قسم کا پہنتے تھے۔ حضور کیا کھاتے اور کیا پیتے تھے؟ حضور نے کتنی شادیاں کیں، حضور سے کون سے معجزے سر زد ہوئے؟پیغمبر کی سیرت اس کے معجزے نہیں ہوتے۔ پیغمبر کا معجزہ اس کی سیرت ہوتی ہے جو انسانوں کی سیرتوں پر اپنی چھاپ لگا کر معاشرہ میں انقلاب لے آتی ہے۔ حضور کا سب سے بڑا معجزہ ان کی سنت ہے، ان کے اعمال اور ان کے افعال ہیں۔ جو لوگ شکلیں حضور کی سیرت کے مطابق بناتے ہیں اور بزعم خویش اس فکر کے مظہر ہیں کہ حضور صحابہؓ، تابعی، تبع تابعی، فقیہہ و محدث اس قسم کی قبا پہنتے، اس انداز کے چوغے اوڑھتے اور اس رنگ کی پگڑی باندھتے تھے۔ وہ حضور کی سیرت کے اس نمونے کا اپنے وجود سے اظہار کیوں نہیں کرتے کہ ساری عمر حضور نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور جو کھایا روکھا پھیکا کھایا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق ہجرت کے بعد حضور کو کبھی مسلسل 3 روز تک گیہوں کی روٹی میسر نہیں ہوئی۔2,2مہینے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا۔اہل بیت ؓ کھجور اور پانی پر بسر کرتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ فاقہ کی وجہ سے آپ کو بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا تھا۔ کیا یہ سنت رسول نہیں؟
پائنچے اونچا رکھنا اور تہبندباندھنا ہی سنت رسول ہے۔ کتنے وارثان منبر و محراب ہیں جو سنت رسول کے مطابق کھانا کھاتے، کپڑا پہنتے اور آپکے فقر و فاقہ کا ذکر کر کے خود فقر و فاقہ کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کیا یہ سنت رسول سے بغاوت نہیں؟
سیرت النبی کے تاجروں نے حضور کے فقرو فاقہ کا ذکر اپنے تن و توش کے لیے فواکہات و مشروبات کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ وہ حضور کی سوکھی روٹی کا ذکر کر کے اپنے لیے مرغن غذائوں کے دسترخوان بچھاتے اور حضور کی پھٹی ہوئی کملی کا نام لے کر اپنے شانہ پر ریشم کی شال رکھتے اور اپنے بدن کو فاخرہ لباس بخشتے ہیں۔
ان علماء کو آج کے مسائل کااندازہ ہی نہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ آج ہر جگہ اور ہر ملک کے مسلمان اجتماعی حیثیت سے خوار و خراب ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں نبیوں کی سر زمین پر کیا گزری؟ عربوں کی شکست فاش صرف ان کے لیے المیہ نہیں ،یہ اسلام کا ایک جانکاہ حادثہ ہے۔ آخر یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ اب آپ معذرت اور وضاحت کے کتنے ہی پہلو اختیار کریں لیکن آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس قوم کے ہاتھوں اسلام کو شکست ہوئی جس کے بارے میں آپ ہر روز نمازوں میں پڑھتے ہیں کہ الٰہ العالمین! ہمیں ان لوگوں سے بچا جو لوگ گمراہ(عیسائی)ہو گئے اور جن پر بڑا غضب ( یہو د ) ناز ل ہوا۔
اے علمائے کرام! آپ اُن شاخوں میں الجھ گئے ہیںجن کی اس زمانے کو ضرورت نہیں ، آج کے مسائل بالکل مختلف ہیں۔ جو مسائل اس وقت عالم انسانی کودر پیش ہیں اُن میں ایک اقتصاد کا مسئلہ ہے کہ انسان رزق الہٰی کا یکساں حقدار ہے یااس کی تقسیم کا موجودہ غاصبانہ طریق جائز ہے۔ انسانی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے سارے معاشرے کو ذہنی طور پر ہلا دیا ہے۔ ہمارے علمائے کرام سیرت رسول کے وہ نمونے خود کیوں نہیں اختیار کرتے جو سنت رسول کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
اسی عمل سے اجتناب کیوں ہے؟ رسول اللہنے کبھی سرمایہ جمع کیا؟ دولت کو گھر میں رکھا، احتکارواکتناز کو اپنی سنت بنایا۔ اسراف و تبذیر کو جائز قرار دیا۔ کیا وارثانِ مسندِ رسول کو سرمایہ داری کا عفریت پھنکارتا ہو انظر نہیں آتا؟ رسول اللہ کے پاس عمر بھر کوئی اثاثہ رہا؟ آپنے کوشش کی کہ جاگیر بنائیں؟ جس رسول نے رحلت کے بعد کوئی اثاثہ نہ چھوڑا ہو جس کو سونا اور چاندی جمع کرنے سے نفرت ہو اُس کے نام پر دعوت و تذکیر کے مجسمے ،سونا اور چاندی جمع کریں اور شرعی تکلوں کی طرح اڑتے پھریں۔ اس سے بڑھ کر سنت کے خلاف بغاوت کیا ہو سکتی ہے۔سنت رسول کو اُن ففتھ کالمسٹوں سے بچانے کی ضرورت ہے جو مسند رسول پر بیٹھ کر سرمایہ داری کا جواز پیدا کرتے ہیں اور نظام زر کی معاونت کے لیے دولت کی منصفانہ تقسیم کیخلاف بیان داغتے ہیں۔ یہ لوگ امپیرلیزم کے ایجنٹ اور سرمایہ داری کے لے پالک ہیں۔ ان کا وجود اسلام کے دل میں ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ بھی تو سنت رسول ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ ایک رات حضور کو نیند نہ آئی، بے چین رہے، بار بار اٹھتے نماز پڑھتے۔ میں نے پوچھا طبیعت ناساز ہے؟ فرمایا نہیں۔ عرض کیا آپ اس قدربے چین کیوں ہیں؟ سرہانے سے چاندی کا اوقیہ نکال کر فرمایا:
’’4 اوقیہ آئے تھے۔ 3 اسی وقت سائلوں کو خیرات کر دیئے ایک رہ گیا ہے۔ خیال تھا شام تک کوئی آ جائے گا تو دے دوں گا لیکن کوئی آیا نہیں اور یہ پڑا رہا۔ اس نے مجھے بے چین رکھا۔ مبادا اسی حال میں موت آ جائے اور یہ چاندی میرے پاس ہو۔‘‘
کیا یہ سنت رسولنہیں؟ کیا ہمارے علماء کو یاد نہیں کہ حضور اپنی بیٹی کے دروازے پر ریشمی پردے کو دیکھ کر لوٹ آئے تھے، فرمایا تھا:میں نہیں چاہتا لوگ کہیں کہ محمد( )کی بیٹی نے اپنے دروازہ پر ریشم لٹکا رکھا ہے۔ ہمارے علماء سنت کا یہ روشن متحرک، بدیہی اور جاندار پہلو پیش کرتے ہوئے کس لیے ہچکچاتے ہیں۔ کیا یہ پہلو بیان کرنے سے ان کے اپنے وجود کی نفی ہوتی ہے؟اے علمائے کرام! معاشرہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اگر انہوں نے چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں زندگی بسر کرنے کا شعار ترک نہ کیا اور سرمایہ دار طاقت کے ایجنٹ بنے رہے تو نئی نسل کا ذہنی انقلاب جسمانی انقلاب کا راستہ کھول دے گا، پھر دماغوں کی بغاوت ان تمام عمارتوں کو ڈھادے گی جن میں ہمارے علماء کی ایک خودرو جماعت بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کا سبق پڑھاتی ہے۔