Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا سال ، محاسبہ نفس کا موقع

جس طرح مختلف کمپنیاں سال کے اختتام پر حساب لگاتی ہیں اسی طرح ہمیں بھی وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہکرتے رہنا چاہئے

 

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ ریاض

ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟

ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟

ہمارے اخلاق نبی اکرم کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کئے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟

ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا کئے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے یا نہیں؟ جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔

نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے بنے؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے؟ جب ہماری اولاد ، ہمارے دوست واحباب اور دیگر متعلقین ہمیں دفن کرکے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑکر آجائیں گے، توکس طرح ہم قبر میں منکر نکیر کے سوالات کا جواب دیں گے؟

کس طرح ہم پل صراط سے بجلی کی طرح گزریں گے؟ قیامت کے دن ہمارا نامہ اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟ کس طرح حوض کوثر سے نبی اکرم کے دست مبارک سے کوثر کا پانی پینے کو ملے گا، جس کے بعد پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؟ جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب وکتاب کے ہمیں جنت الفردوس میں مقام ملے گا؟ آخرت کی کامیابی وکامرانی ہی اصل نفع ہے جس کے لئے ہمیں ہرسال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں، ان شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: 5 امور سے قبل 5 امور سے فائدہ اٹھایا جائے، بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے،مرنے سے قبل زندگی سے، کام آنے سے قبل خالی وقت سے، غربت آنے سے قبل مال سے، بیماری سے قبل صحت سے۔ (مستدرک الحاکم ومصنف بن ابی شیبہ) اسی طرح حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام، مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں، علم پر کتنا عمل کیا؟ (ترمذی)

 

مکمل مضمون 30دسمبر 2016کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

شیئر: