Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’کریلا ، نیم چڑھا‘‘: ’’سرکاری اسکول،وہ بھی اردومیڈیم‘‘

بستوں کے وزن کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا یاجاسکتا ہے کہ کون سا بچہ کانونٹ کا ہے، کون سا محض انگلش اسکول کا، کون سا نجی اسکول کا اور کون سا بچہ اردومیڈیم کا ہے اور کونسا سرکاری اسکول سے پڑھ کر آ رہا ہے ۔

 

ثمینہ عاصم۔ جدہ

’’بھاری بھرکم بستے ، اور نیچے بچے پستے۔‘‘ آپ نے بچوں اور ٹیچرز کو صبح سویرے اسکول جاتے اور دوپہر کے وقت اسکول سے واپس آتے ضرور دیکھا ہوگا۔ ان بچوں کے کا ندھے اور کمربستے کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ چہروں پر مسکراہٹ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ انکی جھکی کمر دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ بے چارے ’’زیرِ بارِ بستہ ‘‘ ہیں۔ ہمارے ہاں کے اسکولوں میں جیسے جیسے بچے اگلی کلاسوں میں جاتے ہیں، ان پر کتابوں کا بوجھ بڑھتا چلاجاتا ہے۔ پہلے زمانے میں کلاس ون کے بچے کے بیگ میں ایک اردوکی ، ایک حساب کی اور ایک انگلش کی کتاب ہوتی تھی۔ اب ایک انگلش کی کتاب، گرامر کی کتاب، ایک انگلش پوئٹری اور ان سب کی الگ الگ کاپیاں بھی بنوائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر انگلش گرامر کی کاپی، کلاس ورک، ہوم ورک ،لٹریچر وغیرہ کی الگ الگ کاپیاںبنوائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب ان بچوں کو مستقبل کا معمار بنانے کی ذمہ دارشخصیات یعنی ٹیچرزکسی بوجھ تلے دبی یا دبے نظر نہیں آتے۔

وہ وین یا بس میں انتہائی آرام دہ سفر کے بعد اسکول کے صدر دروازے کے سامنے اترتے یا اترتی ہیں اور ’’کھٹ پٹ کرتی ‘‘ اسکول کی عمارت میں داخل ہو جاتی ہیں جہاں طالبعلموں کی شکل میں ان کے ’’خدمت گزار،وفادار، تابعدار‘‘ ہستیاں موجود ہوتی ہیں۔ان کے مقابلے میں بچے ان بھاری بستوں کو اٹھا کربمشکل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اسکول میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی نہیں اگر ذرا تاخیر ہوجائے تو استانیوں سے پٹائی بھی ہوتی ہے ۔ یہ بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور خاص طور پر سرکاری اسکولوں کا وتیرہ ہے ۔ اکثر وا لدین شکایت کرتے ہیں کہ آخربچوں کے بستے اتنے بھاری کیوں رکھوائے جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہر بڑے اور نامی گرامی اسکول کے بستے ایسے ہی بھاری بھرکم ہوتے ہیں بلکہ راہ چلتے لوگ بچوں کی جھکی ہوئی کمر اور اس پر لدے بستوں کے ممکنہ وزن کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون سا بچہ کانونٹ کا ہے، کون سا محض انگلش اسکول کا، کون سا نجی اسکول کا اور کون سا بچہ اردومیڈیم کا ہے اور کون اس وقت سرکاری اسکول سے پڑھ کر آ رہا ہے ۔

ہماری ہمسائی ہمیں مرعوب کرنے کے لئے یہ بتانا چاہ رہی تھیں کہ ان کا بچہ انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے چنانچہ فرمانے لگیں کہ ’’بہن! جس طرح دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے ناں، اسی طرح ہماری اردوزبان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ نئے نئے انداز کے محاورے، نئی نئی تراکیب زبان کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ ماضی میں آپ نے سنا ہوگا کہ جب کہیں دو خامیاں یا منفی باتیں اکٹھی ہوجاتی تھیں تو اہل زبان فرماتے تھے کہ’’ لو میاں! ایک تو کریلا ا ور وہ بھی نیم چڑھا۔‘‘آج کے دور میں یہ کریلا وریلا نیم پر سوار نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اکثر نوجوانوں کے سامنے جب کریلے کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ کڑوے کسیلے منہ بنا کر دریافت کرتے ہیں ’’مام! واٹ از دِس ’’کریلا‘‘ ؟ پتا ہے میں نے ایک روز اپنے بیٹی کے سامنے یہ محاورہ بول دیا کہ بیٹی یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کریلا نیم چڑھا۔ اس پر وہ جھنجلا کربولی کہ مام!اس کے میننگز تو بتائیں ناں۔ ہم نے کہا بیٹی ہم آپکے سامنے کیفیات پیش کردیتے ہیں،محاورہ آپ خود گھڑ لیجئے گا۔ ہم نے کہا کہ: ’’ جب کوئی لا پروا کسی انتہائی لا پروا کا دوست بن جائے ، جب کوئی سست شخص، بے حد سست ہستی کے ساتھ اتحاد کر لے یا کوئی کمزور چیز کسی انتہائی کمزور شے کے ساتھ ملا دی جائے یاکوئی ناکارہ شخص انتہائی ناکام شخصیت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے انجام کے حوالے سے کیا کہا جائے گا، ہم تو اسے کہتے ہیں کہ ’’کریلا ، نیم چڑھا‘‘آپ بتائیے اس کا نعم البدل کیا ہو سکتا ہے ،آپ صورتحا ل کو کن مختصر اور جامع الفاظ میں بیان کرنا چاہیں گی۔ یہ سن کر ہماری بیٹی نے کیا خوبصورت بات کہی، وہ بولی کہ ’’سرکاری اسکول اور وہ بھی اردومیڈیم۔‘‘اس روز کے بعد سے میں نے اس نئے محاورے کو لغتِ ریختہ میں شامل کرنے کا عزم کر لیا ہے ۔‘‘ ہمارے ملک میں بچوں کوانگلش سکھانے پر زور دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کہ اگر آپ کو انگلش بولنا آتی ہے تو آپ پڑھے لکھے ہیں اور اگر انگریزی سے آپ نابلد ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپکو کچھ نہیں آتا۔ باہر کے ممالک جانے اور نوکریاں حاصل کرنے کیلئے انگلش آنا بہت ضروری ہے ۔ پہلے زمانے میں لکھنے کا رواج تھا۔ اسی لئے اسکول جانے والے ہر بچے کے پاس ایک کاپی املا کی ہوا کرتی تھی۔ املا کا باقاعدہ پیریڈ ہوا کرتا تھا۔اسی طرح ایک کاپی خوشخطی کی ہوتی تھی ۔

ہر کوئی اپنی لکھائی خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا تھا اور پھر اپنے اعزہ کو خط لکھتا تھاٹ وہ اس قدر حسین لکھائی دیکھ کر جوابی خط میں تعریف کر دیا کرتے تھے جس سے پذیرائی ہوا کرتی تھی۔ پہلے زمانے میں پہاڑے رٹائے جاتے تھے ۔ اس کا بس ایک نقصان ضرور ہوتا تھا کہ جب بھی کسی بچے سے پوچھا جاتا کہ بیٹے ذرا بتائیے 16اٹھے کتنے ہوتے ہیں؟ جواباً وہ 16کا سارا پہاڑہ ایک سے شروع کرتا اور اگر اسے بیچ میں ٹوک دیا جاتا تو وہ ’’ڈسٹرب‘‘ ہوجاتا اور پھر دوبارہ سے 16ایکم سولہ سے شروع کر دیتاتھا ۔ یوں وہ چند سیکنڈوں میں صحیح جواب دیدیا کرتا تھا مگر آج کے بچوں سے اگرپوچھ لیاجائے کہ 8 پنجے کیا ہوتے ہیں تو وہ جواباًکیلکولیٹر یا موبائل نکال کر بیٹھ جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بیگ کا وزن یا ایک مضمون کی پانچ پانچ کاپیاں بنادینے سے علم میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آج ہم املا اور لکھائی پر توجہ نہیں دیتے اس لئے بچے ٹائپ کرکے یا زبانی ،سوال کا جواب دے دیتے ہیں لیکن لکھنے میں صفر ہیں۔ ایک مضمون کو پانچ پانچ کاپیوںسے مزین کرنے کے باوجود بچوں کو زیرزبر پیش کا کوئی علم نہیں کہ یہ کن بلاؤں کا نام ہے ۔

شیئر: