Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدرتی نظام سے ہم آہنگ ، ہجری کیلنڈر

اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ نبی کا افقِ وجود پر جلوہ گر ہونا ہے ۔ رفعت و عظمت کے اعتبار سے یہ اتنا بڑا واقعہ ہےجس نے انسانیت کی پوری تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا

 

محمد منیر قمر۔الخبر

تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے جب سے زمانۂ تہذیب میں قدم رکھا اور لکھنا پڑھنا سیکھا ہے ، تبھی سے اُن میں زمانے کی ماہ و سال اور ایام میں تقسیم کا رواج چلا آرہا ہے۔ جن ممالک میں تقویم زمانۂ قدیم سے متعارف ہے ، ان میں عراق ، شام ، مصر ، یمن ، چین ، ایران اور ہندوستان خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ان میں سے بالخصوص عراق میں اگرسب سے پہلے نہیں تو کم از کم اکثر اقوام سے پیشتر اسکا رواج ہوا جبکہ مؤرخین نے سومری اور حمورابی تہذیبوں میں بھی اسکے استعمال کا پتہ دیا ہے جوکہ 3 ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ میں تھے ۔

جازرمیں آثارِ قدیمہ میں کی جانے والی کھدائیوں میں پتھر کی کچھ ایسی سلیں ملی تھیں جن میں12 ماہ کا کیلنڈر نقش تھا او راسکا تعلق حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ بنی اسرائیل میں بھی اس کا پتہ چلتا ہے جیسا کہ سفر الخروج باب13فقرہ 4 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے ماہِ ابیب کا ذکر آیا ہے جوکہ انکی تقویم کا ایک مہینہ تھا (قاموس کتاب المقدس)سفرِتکوین ، اِصحاح7،8 میں مذکور ہے کہ طوفانِ نوح علیہ السلام کا زور دوسرے مہینے کی 17تاریخ سے لیکر ساتویں مہینہ کی 10 تاریخ تک یعنی ایک سو 50 دن تک رہا ۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ لیل و نہار اور ماہ و سال پر مبنی تقویم کا رواج طوفانِ نوح علیہ السلام سے بھی پہلے ہوچکا تھا ۔ بخت نصری ، قبطی جدید یا سکندری تقویم کا آغاز 29اگست 25ق م بروزِ جمعہ سے ہوتا ہے جبکہ بعض علماء نے اسکا نقطۂ آغاز سنہ 274 بتایا ہے ( الزیج الصبائی للبتانی)

ہندوؤں کی مذہبی کتاب منو سمرتی کے فقرہ64 ، 65 میں لکھا ہے ’’ایک روز ایک دن اور رات کا ہوتا ہے اور 30 مہورت کے برابر ہوتا ہے ۔ایک مہورت 48منٹ کا ہوتا ہے۔ رات آرام کیلئے اور دن کام کیلئے ہے ‘‘ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ہندو مذہب میں بھی تقویم کا رواج منوسمرتی کی تالیف سے قبل کا ہے جبکہ منو سمرتی کا زمانۂ تالیف دوسرے ہزار قبل مسیح کا اوائل ہے۔ اہلِ فارس و ایران میں جب کوئی بادشاہ تخت نشین ہوتا تو اس دن سے تاریخ کا حساب لگایا جاتا اور اس کی وفات کے ساتھ ہی یہ سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ مکر یزدگر بن شہریار بن پرویز خسرو کی تخت نشینی سے لیکر فارسی یانوشیر وانی تقویم مسلسل چلی آرہی ہے جس کے ہر ماہ کے 30 اور سال کے360 دن ہوتے ہیں اور ہر 120سال کے بعد انکا ایک سال13 ماہ کا ہوتا ہے جسے سہرک کہتے ہیں ۔ اس زائد تیرہویں مہینے کو’’ شہزاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔(سفینہ راغب ، تالیف محمد راغب پاشا )

رومانی تقویم45ق م میں جولیس قیصر نے وضع کی جبکہ رومی اور سریانی کیلنڈر اس سے ملتے جلتے ہیں البتہ آج کل کا معروفِ عالم عیسوی کیلنڈر ، رومانی تقویم کی تہذیب و ترمیم شدہ کا پی ہے ۔ عربوں میں رواج تھا کہ وہ بعض اہم واقعات و حوادث کو بنیاد بناکر تاریخ لکھا کرتے تھے ۔ اہلِ مکہ حروب الفجار ، حلف الفضول یا عام الفیل سے آغاز کیا کرتے تھے ۔ عام الفیل کا استعمال سب سے زیادہ معروف تھا جیسا کہ مؤرخین نے نبی کی پیدائش عام الفیل لکھی ہے ۔ دنیا میں عام طور پر جو کیلنڈر استعمال ہوتے رہے ، ان کی مجموعی تعداد 15ہے جن میں ہجری ، جولین پیریڈ ، عبرانی ، طوفانِ نوح ، کل جُگ ، ابراہیمی ،بختِ نصری ، سکندری ، بِکرمی بروشٹہ ، بِکرمی قمری شمسی ، عیسوی قدیم ، عیسوی جدید ، قبطی جدید ، نوشیروانی اور عام الفیل شامل ہیں ۔ان تمام تقاویم میں سے صرف ہجری و اسلامی تقویم کو چھوڑ کر باقی سب میں ترمیم و اضافہ اور تہذیب و اصلاح ہوتی رہی ہے ۔ کوئی بھی اپنی پہلی صورت پر قائم نہیں رہ سکی مگر ہجری تقویم کا زمانہ حضرت عمرفاروق ؓسے آغاز ہونے سے لیکر آج تک اپنی مجوزہ صورت پر چلی آرہی ہے ۔ یہ فضیلت دوسرے کسی بھی کیلنڈر کو حاصل نہیں ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دنیا کے اکثر مروجہ کیلنڈروں میں سے یہ ہجری کیلنڈر قدیم تر ہے اگرچہ دیگر کیلنڈر اپنے اعداد کے لحاظ سے قدیم اور پرانے لگتے ہیں،مثلاً : ’’یکم محرم 1ھ بمطابق16 جولائی 5335جولین ‘‘ بظاہر جولین5334سال قدیم نظر آتاہے مگر در حقیقت یہ ہجری کیلنڈر سے 989سال بعد 1582ء میں وضع ہوا ۔ ’’یکم محرم 1ھ ، بمطابق3 آب 4382عبری ‘‘ اس سے بظاہر عبرانی تقویم 4381سال قدیم لگتی ہے مگر دراصل یہ بھی989 سالِ ہجری کے بعد1582ء میں وضع ہوئی ‘‘( انسائیکلوپیڈیا،چہارم )

کل جُگ ہجری تقویم سے3723 سال پہلے معلوم ہوتا ہے مگر یورپی مؤرخین اور ہیئت دان اعتراف کرتے ہیں کہ یہ چوتھی صدی عیسوی میں وضع کیا گیا ۔ گویا اپنے حساب سے34 صدیاں گزرنے کے بعد خود اس کا اپنا جنم ہوا ۔اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی معرکۃ الآراء کتاب رحمۃ للعالمین جلد دوم کا مطالعہ بڑا مفید ہے ۔ تاریخِ انسانیت کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے کم وبیش 15کیلنڈر مروج رہے ہیںجن میں سے چند اہم اور معروف کیلنڈروں کے آغاز وارتقاء کا مختصر تعارف ہو چکا ہے ، ان تمام میں مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں ،ترمیم و تہذیب اور اضافے ہوتے رہے ہیںکیونکہ وہ تمام انسانی دماغوں کی اختراع تھے ۔ان کی بنیاد بھی کسی مضبوط چیز پر نہ تھی جبکہ ان سب کے بر عکس اسلامی یا ہجری تقویم کو یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ وہ جب سے تجویزہوئی ہے ، اس میں کوئی ایسی ایک بھی تبدیلی نہیں لائی گئی جو دوسروںمیں متعدد بار رو نما ہوئیںاور نہ ہی رہتی دنیا تک اس میں کسی ترمیم و تہذیب کی ضرورت پیش آنے والی ہے کیونکہ اس تقویم کی بنیاد منشائے الٰہی کے عین مطابق چاند پر ہے اور چاند کو اللہ تعالیٰ نے سن وسال کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ سورہ یونس، آیت5 میں ارشادِ الٰہی ہے ’’اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے سورج کو ضیاء و روشنی اور چاند کو اجالے اور چاندنی کیلئے بنایا ہے اور چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں تاکہ اس کے ذریعے تم سالوں کی تعداد اور حساب و کتاب معلوم کر سکو‘‘ اور دوسری جگہ سورہ البقرہ، آیت189میں فرمایا ’’لوگ آپ سے(اے میرے نبی! )

چاند کی مختلف حالتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، انہیں بتادیں کہ یہ لوگوں کیلئے ، (کاروبار کے) اوقات اور حج کا وقت معلوم کرنے کیلئے ہیں ‘‘ اسی ہجری کیلنڈر کے12 مہینے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ، آیت36میں یہی فرمایا ہے ’’اللہ تعالیٰ نے جب سے زمین و آسمان بنائے ہیں ، اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہیں ‘‘اس آیت سے اورپہلی آیت سے معلوم ہوا کہ سال کے12 ماہ اور ہر ماہ کے آغاز اور تاریخ کا پتہ چلانے کا ربانی ذریعہ چاند(ہلال) ہے تمام شرعی امور مثلاً رمضان، حج ، یومِ عرفہ ، ایامِ تشریق اور ایامِ بیض چاند ہی سے معلوم ہوتے ہیں ۔ اس ہجری ، قمری یا اسلامی تقویم کی بنیاد اِسی فطرتی اور قدرتی نظام پر قائم ہے ۔ ایسے ہی اس ہجری کیلنڈر کی ایک فضیلت و صفت یہ بھی ہے کہ اس میں عدل و انصاف اور مساوات و ہمہ گیری پائی جاتی ہے،مثلاً : اگر شمسی یا عیسوی تقویم کے حساب سے گرمی یا سردی کے کسی مہینے کو رمضان کی جگہ روزے کا مہینہ قرار دے دیا جاتا ہے تو یقیناآدھی مسلم دنیا کو آسانی اور آدھی ہمیشہ کیلئے مشکل میں مبتلا ہوجاتی کیونکہ جغرافیہ کاہر طالب علم جانتا ہے کہ دسمبر جو نصف شمالی دنیا کیلئے سب سے سرد اور چھوٹے دنوں والا ہوتا ہے، یہی مہینہ نصف جنوبی دنیا کیلئے سب سے گرم اور طویل دنوں والا ہوتا ہے مگر اسلا م کی ہمہ گیری کا تقاضا یہ تھا کہ تمام عالم کے مسلمانوں کو اس سلسلہ میں برابری میسر آئے اور ہجری کیلنڈر کے ماہ رمضان کے روزوں سے یہ سہولت میسر ہے کہ پورے عالم کے مسلمانوں کو کبھی گرمی اور کبھی سردی ، کبھی بہار اور کبھی خزاں میں پورے روزے رکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے ۔(الہجرہ، احمد عبد الغفورعطار)

ان خصوصیات اور امتیازات کی مالک ہجری تقویم یا اسلامک کیلنڈر کے آغاز کے بارے میں امام زہریؒ کا ارشاد ہے کہ ’’خود نبی نے ہجری تقویم کا حکم دیا تھا جبکہ آپ قباء میں پہنچ گئے تھے ‘‘( الحاکم فی الاکلیل) امام سیوطی کے بقول جب نبی نے نجران کے عیسائیوں کو خط لکھا تو حضرت علیؓ کو اس میں یہ لکھنے کا حکم دیا ’’یہ خط 5 ہجری کو لکھا جارہا ہے ‘‘(تدریب الراوی) مگر جمہور اہلِ علم کا فیصلہ یہ ہے کہ ہجری تقویم کا دن، ماہ اور سال کے ساتھ باقاعدہ آغاز عہدِ فاروقی12ھ میں ہوا ۔ پہلی دونوں روایتوں اور جمہور کے فیصلے میں اس طرح تطبیق بھی ممکن ہے کہ نبی کے زمانے میں دن اور ماہ و سال کا باقاعدہ رواج نہیں ہوا تھا ۔ صرف سال لکھنے پر اکتفا کیا جاتا تھا اور عہدِ فاروقی میں یہ باقاعدہ شکل تجویز ہوئی ۔حضرت عمرِ فاروق ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے اجرائے تاریخ کامشورہ طلب کیا جیسا کہ ابو نعیم ؒ نے اپنی تاریخ اور حافظ ابنِ کثیر ؒ نے البدایہ والنہایہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓنے حضرت عمر فاروقؓ کو لکھا ’’ہمیں ملنے والے آپ کے خطوط میں تاریخ نہیں ہوتی ‘‘اور ایک ایسا معاملہ سامنے آیا کہ جس کا تعلق شعبان سے تھا تو پوچھا گیا ’’کیا اس سے گزرا ہوا شعبان مراد ہے یا آئندہ شعبان ؟ ‘‘لہٰذا حضرتِ فاروق ؓ نے باقاعدہ تاریخ وتقویم کا ارادہ کیا اور صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیا ( الہجرہ للعطار )

جب حضرتِ فاروق ؓنے صحابہ کرام ؓسے اجرائے تاریخ کامشورہ طلب کیا تو کئی ایک آراء سامنے آئیں، کسی نے ولادتِ رسول ، کسی نے بعثت، کسی نے ہجرت اور کسی نے آپ کی وفات سے آغاز کا مشورہ دیا مگر حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی رائے پر دولتِ اسلامیہ کا پیش خیمہ بننے والے واقعۂ ہجرتِ رسول کو نقطۂ آغاز بنایا گیا۔ ہجرت اگرچہ ماہِ ربیع الاول میں ہوئی تھی تاہم آپ کا عزمِ ہجرت بیعتِ عقبہ کے وقت ذو الحجہ ہی میں ہوچکا تھا اور اس عزم کے بعد پہلا چاندمحرم کا ہی طلوع ہوا اور یہی عربوں میں پہلا مہینہ مشہور و معروف تھا لہذا اسے ہی ہجری کیلنڈر کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا ۔ بخاری شریف میں ہے ’’صحابہ کرامؓ نے آپ کی بعثت یا وفات کی بجائے آپ کی ہجرتِ مدینہ سے تاریخ کا آغاز کیا ‘‘حافظ ابن حجرنے شرح بخاری میں بڑی نفیس بحث کی ہے ۔ کئی آثار نقل کئے ہیں اور لکھا ہے کہ محرم سے آغازِ سال کی رائے حضرت عثمان ؓ کی تھی اور ہجرت کو نقطۂ آغاز بنانے کی رائے کے بارے میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کی تھی(البدایہ والنہایہ) حضرتِ فاروقؓ کو جن امور میں شرفِ فوقیت حاصل ہے انہی میں سے ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوںکی تقویم کا آغاز واقعۂ ہجرت سے کیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کی ابتداء کیلئے اُس وقت کو مناسب و موزوں سمجھاجب رسول اللہ نے یہ خیال فرمایا کہ اب مکے کی فضا مسلمانوں کے قیام اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے ناسازگار ہوگئی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخِ اسلام کے صفحاتِ پر ثروت میں اور بھی بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں جو شان و شوکت اور مسرت و شادمانی کے اعتبار سے انتہائی لائقِ اعتنا اور قابلِ توجہ ہیں ۔ آخر اُن میں کسی واقعہ کو اسلامی تقویم کے آغاز کیلئے کیوں منتخب نہ کیا گیا ؟ پھر نبی کے عہدِ مسعود میں بعض ایسے سانحات و حوادث بھی رونما ہوئے جنہیں شدت و تلخی اور حزن و ملال کے اعتبار سے تاریخِ اسلامی کا ایک نہایت نازک موڑ اور انتہائی تکلیف دہ باب گردانا گیا ۔ آخر ایسے واقعات میں سے کسی کو تاریخِ اسلام کا مبد اء کیوں نہیں بنایا گیا ؟ اور واقعۂ ہجرت کو اولیت کیوں دی گئی ؟۔ اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ نبی کا افقِ وجود پر جلوہ گر ہونا ہے ۔ رفعت و عظمت کے اعتبار سے یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ جس نے انسانیت کی پوری تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا ۔

 

مکمل مضمون روشنی 30دسمبر 2016کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

شیئر: