Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق ازبک صدر کریموف نے ملت اسلامیہ کا کھویا ہوا سرمایہ لوٹایا

ازبکستان کے پہلے صدر جمہوریہ اسلام کریم آف کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہو ں نے ملت اسلامیہ کی تاریخ کو از سرنو زندہ کیا

 

ارسلان ہاشمی ۔۔ جدہ 

 

گزشتہ سے پیوستہ         

(3)                  

روسیوں کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح گرم پانیوں میں نکلیں اور دنیا پر حکومت کریں اسی لئے انہو ںنے ترکستان پر قبضہ کرنے کے بعد افغانستان پر قبضہ کرنے کے لئے فوجیں اتا ر دیں ۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو ہرا رہی تھی مگر شاید قدر ت ترکستان کے علماء کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے روس کو سبق سکھانا چاہتی تھی ۔ افغانستان کی حالت قدرے مختلف تھی اگرچہ وہاں کے ارباب اقتدار بھی کمیونزم اور سوشلزم کے حامی بن چکے تھے مگر ترکستان اور افغانستان کے جغرافیائی حالات میں بڑا فرق یہ تھا کہ افغانستان کی سرحد پاکستان سے ملتی تھی " جبکہ ما ورالنہر کے پڑوس میں کوئی پاکستان نہیں تھا " جہاں اس وقت ضیاء الحق جیسا جری اور بہادر سپاہ سالار موجود تھا ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب افغانستان سے ایک وفد جن میں پروفیسر مجددی ، احمد شاہ مسعود ، برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار شامل تھے پاکستان آیا اور جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کی اس موقع پر حمید گل بھی موجود تھے جن کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ( اب روس کی شکست دور نہیں ) کو رب تعالی نے شرف قبولیت بخشا شاید وہ وقت بھی قبولیت کا ہو گا ۔ ۔

افغانستان پر چڑھائی کے چند برسوں بعد ہی رو س کو نہ صرف افغانستان بلکہ ترکستان سے بھی ہاتھ دھو کردوبارہ برف زاروں تک محدود ہوجانا پڑا ۔ روسی صدر میخائل گورباچوف نے ازبکستان کی آزادی کا حکم صادر کر دیا ۔31 اگست 1991 میں روس نے ازبکستان کی خود مختار ی تسلیم کرتے ہوئے حکومت وہاں کے افراد کے سپرد کر دی اور پہلے صدر جمہوریہ کے طور پر اسلام کریم آف نے مسند اقتدار سنبھالی ۔ ازبکستان کی آزادی نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ازبک اور دیگر اقوام نے انتہائی مسرت سے قبول کیا اورماورالنہر کی قدیم تاریخ کو بحال کرنے اور عظمت رفتہ کو از سرنو تعمیر کرنے میں لگ گئے ۔ 1991 کے آخری مہینے تھے۔ ازبکستان کے لوگوں کو دنیا دیکھنے کے لئے آزادی ملی اور وہاں سے قافلے پاکستان اور سعودی عرب پہنچنا شروع ہو گئے ۔ 1992 کے آغاز میں پاکستان کے ایک سیاحتی گروپ نے ازبکستان کے لئے ٹور سروس شروع کی دنیا بھر سے صحافی ،تجزیہ نگاراور انسانی حقوق کے اداروں کے افراد وہاں پہنچنے لگے۔ 1992 میں میں کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اسی دوران کچھ ازبک طلباء سے ملاقات ہوئی جو متحدہ عرب امارات کے ایک مخیر ادارے کی جانب سے تعلیم حاصل کرنے کراچی آئے ہوئے تھے۔ ان طلباء سے وہاں کے حالات جاننے کے بعد میں نے ددھیالی رشتہ داروں کی تلاش میں ازبکستان جانے کے لئے تیاری شروع کی ۔ ستمبر 1992 کے اختتام پر ہمارا ویزا لگا اور میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ کراچی سے تاشقند کے لئے روانہ ہو گیا ۔ میرے پاس نہ کوئی ایڈریس تھا اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ برسوں بعد ایک انجان ملک سے کس طرح اپنے رشتہ داروںکو تلاش کرسکوں گا ۔ میرے پاس صرف والد صاحب کی کتاب اور خاندان کے بزرگوں کے نام ہی تھے ۔ تاشقند کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ہمارے گروپ کا لیڈر ہمیں ہوٹل ( چار سو ) لے آیا جو اسوقت کا سب سے بڑا ہوٹل تھا۔ ہوٹل کے سامنے ہی ایک بہت بڑی مسجد اور اس سے ملحق مدرسہ تھا جس کا نام کوکلتاش مدرسہ تھا ۔ نماز فجر ادا کرنے میں مسجد گیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نمازیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں نوجوانوں کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی ۔ مدرسہ کوکلتاش 1569میں سلطان یارک خان نے تعمیر کروایا تھا ۔ کوکلتاش مدرسے سے ملحق طلباء کی رہائش کے لئے کمرے جنہیں ازبکی زبان میں " اوطاق " کہا جاتا ہے قطار سے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ ازبکستان کے پہلے صدر جمہوریہ اسلام کریم آف کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہو ںنے ملت اسلامیہ کی تاریخ کو از سرنو زندہ کیا جسے روس نے ہر ممکن طور پر تباہ و برباد کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا تھا مگر اسلام کریم آف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہو ںنے ماورالنہر کی قدیم شناخت اور ورثہ کو اسی انداز میں دوبارہ عالم اسلام کیلئے تعمیر کروایا ۔ 1992 وہ زمانہ تھا جب ازبکستان اپنی آزادی کے ابتدائی دور سے گزر رہا تھا ۔ اس وقت کے حالات قطعی مختلف تھے ۔ ملک قانون سازی کے مراحل سے گزر رہا تھا جبکہ عوام کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔ جو لوگ علاقے کے اس سیاہ دور سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ سوشلزم کے خونی پنجے میں جگڑی ہوئی قوم کو کسی طرح کی آزادی نہیں تھی ۔ سوشلسٹ نظام حکومت کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نظام کے شہریوں کو کسی قسم کے ملکیتی حقوق حاصل نہیں ہوتے ۔ جائیدادہو یا کاروبار ہر کچھ حکومت کا ہوتا ہے ۔ وہاں افراد مزارع ہو تے ہیں اور حکومت مالک و مختار ہوتی ہے ۔ اس جابرانہ نظام میں پروان چڑھنے والی قوم کو بیرونی دنیا سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا تھا ۔ آزادی کے ابتدائی دنوں میں جب میں تاشقند پہنچا تو سب سے بڑی پریشانی جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا تھا وہ مواصلاتی رابطہ تھا میں اپنے گھر والوں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ ٹیلی فون کی سہولت تو موجود تھی مگر انٹرنیشنل کالز کی سہولت نہیں تھی ۔ بین الاقوامی کال کرنے کیلئے خصوصی اجازت درکار ہوتی تھی جس کیلئے ہمیں علاقائی ٹیلی فون ایکسچینج میں درخواست دینی پڑی مگر وہاں سے جو جواب ملا اسے سن کر میں حیران رہ گیا کیونکہ ٹیلی فون ایکسچینج سے بتایا گیا کہ کراچی کیلئے کال 20 دن بعد مل سکتی ہے اس سے قبل ممکن نہیں ۔ پریشانی یہ تھی کہ کراچی میں والدہ اور گھروالے میرے بارے میں فکر میں مبتلا ہو نگے کیونکہ والدہ نے تاکید کی تھی کہ جاتے ہی خیریت کی خبر دینا مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا ۔ اتفاق سے ایک واقف کار طالب علم جو کہ کراچی میں قیام کر چکا تھا کے والد کی مدد سے یہ ہوا کہ جو کال ہمیں 20 دن بعد ملنی تھی اس کا وقت کم ہو کر 7 د ن کروا دیا گیا ۔ یہ بھی بڑا غنیمت تھا کیونکہ 20 دن کا تو ہمارا ٹور ہی نہیں تھا ۔

ازبکستان ۔۔ تعمیر و ترقی کے ابتدائی دور میں

یہ درست ہے کہ اگر لیڈر اچھا اور مخلص ہو تو وہ عوام کی بہتر ی کیلئے سوچتا ہے کیونکہ عوام خوشحال ہو نگے تو ملک میں امن و امان ہو گا ۔کسی بھی ملک کیلئے یہ بات بے حد اہم ہے کہ وہاں امن و امان مکمل طور پر قائم ہو ۔ آزادی کے ابتدائی دنوں میں ازبک عوام بکھری ہوئی تھی انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس جانب جائیں ۔ ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریم آف نے جس طرح ملک و قوم کی خدمت کی وہ مثالی ہے جسے سنہری الفاظ میں لکھا جانا چاہئے ۔ آج سے تقریبا 25 برس قبل ازبکستان کو ایک پسماندہ ملک کہا جاسکتا تھا جہاں ضروریات زندگی کا حصول انتہائی مشکل تھا ۔ عوام کسی چیز کے مالک نہیں ہوا کرتے تھے ۔ سوشلسٹ نظام نے انہیں اپنا محکوم بنا رکھا تھا ۔ نہ مکان عوام کے ملکیت تھے نہ ہی وہ کسی کاروبار کے مالک تھے۔ تاشقند میں چند سپر اسٹور اور گنتی کے ہوٹل ہوا کرتے تھے ۔ سیاحوں کو مقامی افراد اپنے گھروں میں کرائے پر کمرہ فراہم کرتے تھے جن سے انہیں آمدنی ہو جاتی تھی ۔ شاہراہیں بھی اتنی کشادہ نہیں تھیں ۔ عوام میں ایک دوڑ لگی تھی مگر وہ منزل سے بے خبر تھے ۔ایسے میں یہ کمال رہنما کا ہوتا ہے کہ وہ منزل کو عوام کے سامنے کھڑا کردیے ۔ اسلام کریموف نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جس عمل پر توجہ دی وہ ملک کی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانا تھا ۔حکومت نے سب سے پہلے لوگوں کو ذاتی روزگار کے مواقع فراہم کئے جس کیلئے افراد کو ذاتی دکانیں فراہم کی گئی ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے ۔ سوشلزم میں ہر چیز حکومت کی ملکیت ہوتی ہے اور عوام کو رقم کے بدلے میں کوپن ملا کرتے تھے جن کے ذریعے وہ اپنی ضروریات حاصل کیا کرتے تھے ۔ کراچی سے آنے والے ہمار ے گروپ میں تقریبا 20 افراد شامل تھے جن کا مقصد کاروبار کرنا تھا جس کیلئے وہ لوگ لیدر کی جیکٹس اور دیگر سامان لے کر آئے تھے مگر میرا مقصد کاروبار نہیں تھا مجھے تو اپنے والد صاحب کے خاندان کو تلاش کرنا تھا جس کیلئے مجھے اندیجان اور نمگان جانا تھا ۔ میرے پاس صرف اس قصبے کا نام ہی تھا اور بزرگوں کے نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتا تھا ۔تاشقند میں مجھے ان ازبک طلبا ء کی ہمراہی حاصل تھی جو کچھ عرصہ کراچی میں ہماری میزبانی میں وقت گزار چکے تھے ۔

 

  ا زبکوں کی مہمان نوازی

روسیوں کے بے جا ظلم و جبر کے باوجود بھی ازبک قوم مہمان نوازی کی اپنی قدیم روایت کو فراموش نہ کر سکی ۔1992 میں جب میںتاشقند پہنچے تھا تو ان طلباء میں سے ایک کا ٹیلی فون نمبر میرے پاس تھا جو کراچی میں کچھ عرصہ زیر تعلیم رہ چکے تھے ۔ میں نے ہوٹل سے انہیں ٹیلی فون کیا وہ نام سنتے ہی ملنے کیلئے بے چین ہو گئے اور چند گھنٹوں میں ہی میرے کمرے میں 5 نوجوان موجود تھے ( ان میں سے اب بیشتر ازبک حکومت میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں ) ان سے مل کر جو خوشی ہوئی وہ ضبط تحریر نہیں کی جاسکتی ۔ انہوں نے مجھے اور میرے ساتھی کو جو کراچی سے ہی میرے ساتھ آیا تھا ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہمیں پورے تاشقند کی سیر کروائی ۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لئے ازبک عوام کے پاکستانیو ںکے بارے میں سوچ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ ہوا یوں کہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اس کے سامنے ہی بازار( چارسو) تھا جہاں پھل اور دیگر اشیائے خورونوش فروخت ہوتی تھی ۔ میں اپنے ساتھی کے ہمراہ بازار میں گھومتے ہوئے فروٹ منڈی تک پہنچا اس وقت انار کا موسم عروج پر تھا میں نے ایسے ہی ایک دکان سے انار کا نرخ معلوم کیا ابھی میں دکاندار سے اشاروں میں ہی بات کر رہا تھا کہ ساتھ والی دکان سے ایک معمر باریش شخص آیا اس نے مجھ سے مصافحہ کرنے کے بعد دریافت کیا کہ کہاں سے آیا ہوں ؟میںنے کہا پاکستان ۔میرے منہ سے پاکستان کا لفظ سنتے ہی معمر شخص نے فورا " ضیاء الحق " کا نام لیا اور خوشی سے مجھے گلے سے لگا لیا ۔ اس نے دکاندار سے اوزبکی میں کہا (جس سے میں انار خرید رہا تھا) " یہ ہمارے مہمان ہیں اور پاکستان کے مسلمان ان سے منافع نہ لینا " ۔( یہ بات کرنے سے قبل وہ معمر شخص اس امر سے واقف نہیں تھا کہ میں ازبکی سے واقف ہوں) ۔ یہ ایک چھوٹی سے مثال تھی ازبک قوم کی پاکستانی مسلمانوںسے محبت کی ۔

 روسیوں کی قائم کردہ روایات کا خاتمہ

سرخ انقلاب کے بعد روسیوں کو سب سے زیادہ مسلمانوں سے خطرہ تھا اگرچہ وہاں مسیحی اور یہودی بھی آباد تھے مگر انکی عبادت گاہوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا گیاجس طرح مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو تباہ و برباد کیا گیا ۔ کمیونسٹوں نے نہ صرف مسلمانوں کی مساجد ، مدارس اور تاریخی عمارتوں کی شناخت مٹانے کی کوشش کی وہاں کمیونسٹوں نے اسلامی شعائر کو مٹانے کیلئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ۔ صرف بخارا میں انقلاب روس سے قبل 8سو دینی مدارس ہوا کرتے تھے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پورے ترکستان میں مدارس کی تعداد کیا رہی ہوگی ۔کمیونسٹوں نے مساجد اور مدارس کو تحویل میں لینے کے بعد مسلمانوں کے عقائد کو مٹانے اور انہیں گمراہ کرنے کیلئے نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا شروع کردیں ۔ کشف القبور اور قبر پرستی کا رواج شروع کروایا ۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ سرخ انقلاب کے بعد بے علم و عمل مسلمانوں کو عالم دین ظاہر کرتے ہوئے ان سے دین کو بگاڑنے کیلئے عجیب وغریب فتوے لئے گئے اور ان پرعمل کروانے کیلئے حکومتی مشنری کو استعمال کیا جاتا۔ یہاں اس دور کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جو والد صاحب کی کتاب میں درج ہے ۔ " ایک دن بخارا میں ایک شخص نے دعوی کیا کہ اس نے ایک بزرگ کو خواب میں دیکھا اور اس سے کہا کہ وہ اس کی قبر کے گرد چکر لگائے تو اسکی مراد پوری ہو گی ۔ اس شخص نے یہ عمل کرنا شروع کر دیا جب اہل علاقہ نے اس کو روکا تو اس نے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں شکایت درج کروا کر ان افراد کو اٹھوا لیا جنہو ںنے شرکیہ عمل کرنے سے منع کیا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد کمیونسٹوں نے اعلان کروایا کہ ہر شخص آزادی سے اپنے مذہبی اعمال کر سکتا ہے ( دراصل یہ اعلان ان لوگوں کے لئے تھا جو انکے آلہ کار تھے اور ممانعت صرف درست اسلامی عقائد کی ترویج اور ان پر عمل کرنے کے لئے تھی اس سے کمونسٹوں کا اصل مقصد لوگو ں کو اسلام سے ہٹا نا اور ان میں بگاڑ پیدا کرنا تھا ) ۔اس طرح کے بہت سے واقعات ماورالنہر کے مسلمانوں کے روز مرہ کا معمول بن چکے تھے دین کو ہر طرح بگاڑنا اور ارکان کا مذاق اڑانا کمونسٹوں کا معمول بن چکا تھا ۔ ان حالات میں برسوں گزارنے کے بعد جو نسل پروان چڑھی وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بہت دور ہو گئی ۔ میں جب اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں اندیجان اور وہاں سے دوسری ریاست قرغستان ( اس کی سرحد ازبکستان سے ملتی ہے جو دوسرا ملک شمار ہوتا ہے ) گیا تو وہاں قصبے میں ایک بزرگ خاتون کا انتقال ہو گیا مگر اہل خانہ تدفین کے انتظامات کرنے کے بجائے اہل محلہ کے لئے طعام و قیام کا بندوبست کرنے میں لگ گئے ۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ میت کی تدفین کب ہو گی ۔ میرے جواب پر انہوں نے جو کہا وہ سن کر میں حیران رہ گیا ۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تدفین کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے اور اس میں کتنے دن لگتے ہیں ۔

شیئر: