گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
ایک مسلمان نیا کیلنڈر لگاتا ہے تویہ گویا اسے پیغام دیتا ہے کہ تمہاری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ،تم قبر اور موت سے قریب ہوگئے
مفتی تنظیم عالم قاسمی۔حیدرآباد دکن
چند روز قبل نئے سال کا آغاز ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی تمام اداروں ‘آفسوں ‘گھروں اور ہر چھوٹی بڑی جگہوں میں پرانے کیلنڈر نکال کر نئے کیلنڈر لگا دیئے گئے ہیں ۔
عام طور پر اس موقع پر خوشی ہوتی ہے اور نئے سال کی آمد کی مناسبت سے بہت سے لوگ جشن مناتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر قلبی مسرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن ایک مسلمان کیلئے یہ موقع مسرت کا ہے اور نہ ہی جشن کا ،یہ وقت اپنے محاسبہ اور اعمال کے جائزہ کا ہے ۔وہ لوگ جن کا مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں ،جو اسی دنیا کے عیش و عشرت کو سب کچھ سمجھتے اور یہاں کی لذت کو آخری لذت تصور کرتے ہیں اُن کے لئے یہ دنیا جنت ہے ۔وہ دنیوی زندگی کے ایک ایک لمحے کو آرام و راحت اور عیش کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں اور انہیں اس کا حق بھی ہے اس لئے کہ جب آخرت اور حساب و کتاب پر ایمان ہی نہیں تو وہ جو چاہیں کریں ،کسی کا ڈر ہے اور نہ خوف ،بس زندگی بہتر انداز میں گزار لینا ان کا سب سے بڑا مقصد اور ساری سرگرمیوں کا خلاصہ ہے تاہم مسلمانوں کا آخرت پر یقین ہے ۔حساب و کتاب کا انہیں خوف ہے اور انہیں یہ تصور دیا گیا ہے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ۔یہاں جیسا عمل ہوگا ویسے ہی مرنے کے بعد جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا ۔اگر کسی نے عیش و مستی اوراللہ تعالیٰ سے بغاوت کے ساتھ زندگی گزاری تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے جہاںوہ ناقابل بیان عذاب سے دوچار ہوگا اور اگر کسی نے یہاں کی زندگی کو غنیمت جانا اور اسے آخرت کی تیاری میں گزارا تو وہ کامیاب ہوگا اور اسے ہمیشہ ہمیش کی راحت اور ابدی جنت نصیب ہوگی جس کے سامنے یہاں کی کوئی تکلیف تکلیف نہیں ،جس کی ایک جھلک پانے کے بعد دنیا کی ساری پریشانیاں انسان بھول جائے گا ۔
اسی وجہ سے مسلمانوں کے لئے یہاں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس قیمتی ہے ۔جس طرح دنیا میں بہت سے امتحانات ایسے ہوتے ہیں جن پر بڑے نتائج کا دارو مدار ہوتا ہے اور سوالات سخت ہونے کے ساتھ وقت اتنا کم دیا جاتا ہے کہ اگر ایک منٹ بھی ادھر اُدھر تاک جھانک میں لگائے تو اس سے بڑا بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت ہر امتحان دینے والا ایک ایک سکنڈ کو قیمتی تصور کرتا ہے اور کبھی اسے ضائع نہیں کرتا ۔ٹھیک اسی طرح ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک متعین زندگی دے کر بھیجا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے ۔ نہ معلوم زندگی کا چراغ کب گل ہوجائے اور آخرت کی ہولناکیوں سے گزرنا پڑے ۔مختلف امراض میں انسان کا مبتلا ہونا صرف ایک بہانہ ہے ورنہ کوئی بھی آدمی اپنے وقت مقررہ سے پہلے نہیں مرتا اور نہ زندگی ختم ہوتی ہے ۔ اب ہر شخص کو اختیار ہے کہ اس زندگی کی قدر کرے اور اسے قیمتی سے قیمتی بنا کر ابدی راحت اور آخرت کو خوش گوار کرے یا اسے چند روزہ لذتوں کی نذر کرکے آخرت کو تباہ و برباد کردے ۔گویا دنیوی زندگی کا ایک ایک لمحہ مسلمان کیلئے عظیم سرمایہ ہے اس لئے کوئی عقلمند شخص اسے ضائع نہیں کر سکتا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ برف بیچنے والا اگر سخت گرمی میں اس کو بیچنے کے بجائے غفلت اور کھیل کود میں مصروف ہوجائے تو ساری دنیا اسے پاگل اور بے وقوف سمجھتی ہے لیکن کوئی شخص لہو و لعب اور بیکار کاموں میں مصروف ہوکر اپنا ٹائم پاس کررہا ہو تو اسے کوئی بھی متوجہ نہیں کرتا اور نہ اسے پاگل اور دیوانہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ برف سے زیادہ قیمتی اور سب سے بڑا خسارہ ہے ۔ ہاں جن کی نظر آخرت پر ہے اور جن پر مادیت کا غلبہ نہیں وہ ہمیشہ وقت کی قدر کرتے ہیں اور ہر پل کو کام میں لانے کی کوشش کرتے ہیں ،لغویات سے حد درجہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح کوئی بھی ہوش مند انسان برف کو دھوپ میں چھوڑ کر کھیل کود میں مصروف نہیں ہوتا ‘اگر چند روٹیاں پاس ہوں اور خود فقر کی نوبت سے گزررہاہو تو اسے کتوں کے سامنے ڈالنے کی غلطیاں نہیں کرتا ،پینے کا ٹھوڑا پانی ساتھ ہو اور دور دراز کا سفر ہو اور راستے میں پانی ملنے کی امید نہ ہو تو پانی بہانے کی بے وقوفی کبھی نہیں کرتا ،ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان اپنا وقت کسی لغو اور بیکار کاموں میں ضائع کرنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا۔ یہ اس کے لئے خسارہ اور شدید نقصان کا باعث ہے۔ اس مو قع پر مشہو ر مفسر قر آن مولانا عبدالماجد در یا با دیؒ کی در ج ذیل چشم کشا تحر یر پڑ ھنے کے قا بل ہے جس سے وقت اور ز ند گی کی اہمیت معلو م ہو تی ہے ، وہ لکھتے ہیں :
’’آ پ اگر امیر ہیں تو اپنی اشر فیو ں اور اگرغر یب ہیں تو اپنے پیسو ں کو کس قد ر عزیز ر کھتے ہیں! ہر سکہ کو آپ صر ف اسی وقت صر ف کر نا چاہتے ہیں جب اس کے معا و ضہ میں آپ کو کسی خا ص لذ ت یا نفع کی امید ہو تی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دی ہو ئی اس بڑی نعمت اور فطر ت کی بخشی ہو ئی اس بڑی دو لت کا بھی کبھی آپ نے حسا ب و کتا ب ر کھا ہے جس کا نا م ’’ وقت ‘‘ ہے ؟ آپ کو یہ معلو م ہے کہ آج جو کچھ آپ کر ر ہے ہیں سب وقت کے اند ر ہو رہا ہے پس اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ آپ کو وقت ہی کے ہر جزئیہ، ہر سا عت، ہر منٹ ،ہر لمحہ، ہر پل کا حسا ب دینا ہو گا ۔ کیا آپ اس کے لئے تیا ر ہیں ؟ کل یہ حسا ب کو ئی دو سر ا لے گا ،آج آپ خو د اپنا احتسا ب کیو ں نہ کر یں ؟ سا ل کے360 دن ،ہر دن کے24 گھنٹے آخر آپ کن مشا غل میں صر ف کر تے ہیں ؟ ان میں کتنا حصہ یا د الٰہی کے لئے نکا لتے ہیں ؟ کتنا وقت نما ز اور دیگر عبا دا ت میں صر ف کر تے ہیں ؟ کتنی دیر خد مت خلق میں مصر و ف ر ہتے ہیں ‘ کتنا وقت درد مندو ں کی غم خو اری اور بیکسو ں کی دست گیر ی میں صر ف کر تے ہیں ؟ اور پھر کتنا وقت اپنی ذات و صفا ت کی پر و رش وآرا ئش کی نذ ر کر تے ہیں ؟ کیا ایسا با ر ہا نہیں ہو ا کہ آپ نے سا را سا را دن دو ستو ں کے سا تھ ہنسی مذ اق میں اور سا ری سا ری را ت جلسو ںاور تما شو ں میں بسر کر دی ہے ؟ کیا ایسا رو ز مر ہ نہیں ہو تا کہ غیر ضر و ری لغو یا ت کے پیچھے ضرو ری سے ضر ور ی اور اہم سے اہم فر ائض تر ک ہو تے ر ہے ہیں ۔عمر کی جو گھڑیا ں غیبت و نکتہ چینی، رشک و حسد ،کذ ب و مبا لغہ،فخر و غر ور،خو شا مد و سخن سا زی نفس پر ستی و عیش پسند ی میں گز رر ہے ہیں، کیا ان کی با بت با زپر س نہ ہو گی ؟ پھر یہ کیا ہے کہ آپ دنیا کے دو سر ے معا ملا ت میں تو بڑے عا قل اور فرزانہ اور منتظم و دو را ندیش سمجھے جا تے ہیں لیکن و قت کی دو لت لٹا نے میں آپ کی مسر فا نہ فیا ضیو ں کی دا ستا ن اورا ق لیل و نہا ر پر جلی حر و ف میں ثبت ہے (اے انسان وقت کی قیمت پہچان،صفحہ17)۔
ایک مسلمان جب پرانا کیلنڈر نکال کر نیا کیلنڈر لگاتا ہے تویہ کیلنڈر گویا اسے یہ پیغام دیتا ہے کہ تمہاری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ،تم قبر اور اپنی موت سے ایک سال کے بقدر قریب ہوگئے ۔اگر تمہاری عمر میں10 سال بچی ہوئی تھی تو اب ایک سال کم ہو کر 9سال باقی رہ گئی اور آئندہ سال یہ 8 ہو جائے گی۔ اس طرح غیر شعوری طور پر آخرت تم سے قریب ہو رہی ہے اس لئے اسی کم وقت میں جو بھی نیک عمل کرنا ہے کرلو،آج موقع ہے کل قیامت کے روز حساب و کتاب ہو گا موقع نہیں دیا جائے گا ،اچانک موت اگر تمہیں دبوچ لے گی تو اب توبہ کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا اور زندگی کے نامۂ اعما ل لپیٹ دیئے جائیں گے ۔وہ خوش نصیب ہے جس نے اس کو غنیمت جانا اور اس کی قدر کی ۔ہر سال نیا کیلنڈر خاموش طور پر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے اور جھنجھوڑتا ہے لیکن ہم دنیا کی محبت میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ عمر کے ختم ہونے اور قبر سے قریب ہونے کا احساس ختم ہوگیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ لمبی امیدوں میں انسان اپنی زندگی گزارتا ہے ۔دنیوی آسائش میں وہ مست رہتا ہے اور اچانک موت اس طرح آجاتی ہے کہ کسی سے معافی تلافی بھی نہیں ہو سکتی ۔لین دین اور معاملات صاف کرنے کی مہلت نہیں ملتی اور نہ تو بہ و استغفار کے ذریعے گناہوں سے پاک و صاف ہوسکتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جس شخص کیلئے زندگی اتنی قیمتی ہو وہ سال نو کی آمد پر ہرگز جشن نہیں منا سکتا اور نہ اس پر خوشی کا اظہار کرسکتا ہے کہ سرمایہ کے لٹنے پر کوئی ہوش مند جشن نہیں منایا کرتا البتہ یہ موقع احتساب اور اپنے عمل کے جائزہ لینے کا ہے کہ اس سال نمازوں کی کتنی پابندیاں کیں ،کتنی قرآن شریف کی تلاوت کی ،کس کا کتنا ناحق مال لیا ،کس پر ظلم کیا کتنا نیک عمل کیا اور کتنا عمل بد سے نامۂ عمل کو داغ دار کیا ہے ۔اگر گناہ کا کام کیا ہے تو اس سے توبہ کریں اور نیک عمل کا عزم کریں اگر نمازوں کی پابندی ہوی تو اس پر خدا کاشکر ادا کرنے کے ساتھ مزید پابندی کا عز م کریں اور نیک کام میں سبقت لے جانے کی کوشش کو تیز سے تیز تر کریں ۔
اسلام نے تمام مسلمانوں کو بے کار اور لا یعنی گفتگو اور کام سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔وقت پر عبادات کی انجام دہی کے بعد کسب حلال ،انسانی خدمات ،رفاہی جدو جہد،خاندان اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی،بیماروں کی عیادت اور اس طرح کے نیک کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ یہ سب با عث اجرو ثواب ہیں ۔جتنا زیادہ ہو سکے اس میں اضافہ اور زیادتی کی کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس قدر اسلام نے اپنے پیروکاروں کو لغویات سے بچنے کی تلقین کی ہے اتنا ہی زیادہ یہ ٹائم پاس کرتے ہوے اور لغویات میں مصروف نظر آئیں گے ۔کرکٹ کھیل کا جائزہ لیجئے اس کے دیکھنے والے سب سے زیادہ مسلمان ہیں غیر مسلم کم ملیں گے ۔لڑائی جھگڑوں ،ہوٹلوں چوراہوں اور مستیوں کے کاموں میں یہی سب سے آگے نظر آئیں گے جیسے مسلمانوں کو اسلام نے علم حاصل کرنے کی سخت تاکید کی ہے اتنا کسی مذہب نے تاکید نہیں کی لیکن آج بھی سب سے زیادہ اَن پڑھ اور پست یہی مسلم قوم ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اس لئے ضرورت ہے کہ اپنے گھر ،خاندان ‘قرب و جوار اور ممکن جگہوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ نیا سال ہمارے لئے جشن اور خوشی کا نہیں ۔پٹاخے پھوڑنے اور آتش بازی کا کام ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں ‘یہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور اس کے احکام و تعلیمات سے بالکل متصادم ہے ا س سے خدا ناراض ہوگا اور وہ اپنی رحمتیں ہم سے اٹھا لے گا ۔یہ طریقہ غیرمسلموں کا ہے ‘ان کی تہذیب سے متأثر ہونے کے بجائے اپنا نقش ان پر چھوڑیں اور یہ بتائیں کہ کائنات کا جو خالق اور مالک ہے اس کی طرف سے یہ زندگی ایک قیمتی عطیہ ہے جس کا کوئی بدل نہیں ‘اس کو صحیح کاموں میں لگانے کا عزم کیا جائے اور لغویات میں اسے خرچ کرکے اس کی ناقدری نہ کی جائے کہ گزری ہوی زندگی پھر واپس نہیں آتی جس نے اسے صحیح طرح گزارا اور نیک کاموں میں لگایا درحقیت وہی کامیاب انسان ہے ۔