Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل ، نماز

ایمان اور عقیدہ توحید دین کی اساس و بنیادیں ہیں، نمازاس ایمان اور عقیدے کی عملی مشق ہے، یہ ایمان کے اظہار کا ذریعہ ہے- - - - - 

 

* * * * *محمد کبیر بٹ۔ ریا ض * * * *

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(اہل ایمان) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پا ؤں مضبوط جما دیں (یعنی ان لوگوں کو اقتدار و اختیار کی قوت حاصل ہو جائے) تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘(الحج41)۔ اس آیت مبارکہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جس طرح ایک مسلمان کی انفرادی زندگی میں5 وقت کی نماز اْس کے ایمان و اسلام کی پہچان ہوتی ہے، اسی طرح مسلمانوں کی اجتماعی سوسائٹی اور مسلمان معاشرے کی اجتماعی پہچان اور اس کے ایمان اور اسلام کا ثبوت بھی نمازکا قیام ہے۔ اس طرح ایک اسلامی حکومت کے 4 بنیادی ستون جن کا ثبوت مندرجہ بالا آیتِ کریمہ سے ملتا ہے، اْس حکومت کی اساس و بنیاد ہیں اور جو حکومت اس اساس سے محروم ہو وہ مسلمانوں کی حکومت تو کہلا سکتی ہے، اسے ایک اسلامی حکومت کہلانے کا کوئی حق نہیں ۔ نبی کریم نے مدینہ طیبہ تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے قباء کے چند روزہ قیام میں وہاں مسجد کی بنیاد رکھی اور مستقل قیام کی جگہ بھی سب سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر کی گئی جس کی بنیاد نبی مہربان کے دستِ مبارک سے رکھی گئی۔یہ اسلامی نظامِ حکومت اور اسلامی معاشرے کی پہلی اینٹ تھی بلکہ نبی محترم نے مسلمان معاشرے میں کسی فرد کے حقِ حکمرانی کو نظامِ صلاۃ کے قیام سے مشروط کر دیا ہے۔ جب آپ سے فاسق وفاجر حکمران کے خلاف خروج کی اجازت طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا:

جب تک یہ حکمران تمہارے درمیان نماز قائم رکھتے ہیں، تب تک ان کے خلاف بغاوت مت کرو۔ نماز کے لئے عربی زبان میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ صلاۃ ہے جس کے معنی ہیں دعا،التجا،تسبیح ،نماز اور رحمت وغیرہ۔ ایک مفہوم اس کا یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آگے بڑھنا اور قریب ہو جانا۔ اس طرح نماز وہ عبادت ہے جس میں بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتاہے، اس کی حمد و ثناء کرتا ہے، اْس سے دعا والتجا کرتا ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن یوں بیان کرتا ہے: ’’سجدہ کر اور قریب ہو جا۔‘‘(العلق19)۔ نبی کریم فرما تے ہیں: ’’بیشک بندہ حالتِ نماز میں اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے یا سرگوشیاں کرتا ہے۔‘‘(مسلم)۔ نماز ہی اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کی بہترین اور کامل ترین صورت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’نماز قا ئم کرو میری یاد کیلئے ۔‘‘(طہ 14)۔ اور فرمایا:

’’اْس نے اپنے رب کو یاد کیا اور نماز پڑھی۔‘‘(الاعلٰی15)۔ سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’جب میں اپنے رب سے ہم کلام ہونا چاہتا ہوں تو نماز پڑھتا ہوں اور جب جی چاہتا ہے کہ میرا رب مجھ سے با تیں کرے تو میں قرآن کی تلاوت کر تا ہوں۔‘‘ نماز ہی سے بندہِ مومن قلبی سکون حاصل کرتا ہے۔ نبی کریم ، حضرت بلالؓ کو حکم فرماتے: ’’ اے بلال ہمیں نماز سے سکون پہنچاؤ۔‘‘ یعنی نماز کیلئے منادی کرو تاکہ ہم اپنے رب کو یاد کر کے سکو ن حاصل کریں۔ آج اللہ کی یاد اور اس کے ذکر اور نمازوں سے غفلت کی وجہ سے ہم کس قدر بے سکونی اور بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ پھر کوئی مال و دولت کے جمع کرنے میں سکون تلاش کرتا ہے کوئی کسی حسینہ کی خلوت میں سکون کا متلاشی ہے اور کوئی پی کر پرسکون ہونا چاہتا ہے لیکن یہ سارے نشے امن و سکون کو برباد کر دینے والے ہیں۔ ’’آگاہ ہو جاؤ! دلوں کو سکون صرف اللہ کی یاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘(الرعد28)۔

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے تسلی دل کو آتی ہے خدا کو یاد کرنے سے نماز دراصل اللہ کی بندگی اور غلامی اور بندے کی فدویت کے اظہار کا ایسا طریقہ ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو آقا ومالک کے سپرد کر دیتا ہے اور خلوص کے ساتھ اْس کی پرستش کرتا ہے۔ ہاتھ باندھ کر وفادار غلاموں کی طرح کھڑا ہوتا ہے پھر جھک جاتا ہے اور پھر اپنے مالک کے سامنے اپنی پوری ہستی بچھا دیتا ہے۔ یہ دراصل عاجزی اور خاکساری کی ایسی کامل صورت ہے جو کسی اور طریقے سے ممکن ہی نہیں۔ یہی عبادت کی غایت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اوراْنہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت کو اسکے لئے خالص کر لیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ نماز قائم کریں اور زکٰوۃ ادا کریں، یہی ٹھیک اور درست دین ہے۔‘‘(البینہ5)۔

علمائے کرام نے عبادت کے 3 ارکان بیان کئے ہیں۔ اخلاص للہ، کامل اطاعت اور ادب اور تعظیم یعنی انتہائی تذلل اور خاکساری اور کامل خشوع و خضوع کا اظہار۔ مندرجہ بالا آیت میں انہیں 3 امور کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور پھر ان کی ظاہری علامت نماز کی تاکید کی گئی ہے۔ ایمان اور عقیدہ توحید جو دراصل ہمارے دین کی اساس و بنیاد ہیں، نمازاس ایمان اور عقیدے کی عملی مشق ہے۔ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ جب آدمی کسی نظریے اور عقیدے کو عمل کے سانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے تو وہ عقیدہ اس کے رگ وپے میں نقش کالحجرہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع ا لی اللہ اور خوفِ خدا کو دلوں میں مستحکم کرنے کیلئے ہرروز5 وقت نماز کی پابندی سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیںہو سکتا۔ یہی نمازہے جس کو نبی کریم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مومن کی معراج قرار دیا ہے۔ معراج دراصل بلندی اورعروج کو کہتے ہیں۔ گویا نماز جو بندے کو رب سے ملانے والی عبادت ہے ،یہی نماز بندہ مومن کی ترقی عروج اور بلنددرجات کا ذریعہ ہے۔ اس نماز کے ذریعے بندہ مومن قربِ الٰہی کی منازل طے کرتے ہوئے انسانیت کی معراج(جنت الفردوس) میں ربِ کریم کے سایہ رحمت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یہی نمازہے جس کی مسلسل مشق اور خشوع کی کیفیت سے بندہ مومن اس دنیا میں اللہ کی مر ضی کی عملی تصویربن جاتا ہے۔

امام بخاری نے حدیث قدسی روایت کی ہے: میرا بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی دوسری چیز مجھے اتنی پسند نہیں جتنی کے وہ چیزیں جو میں نے اس پر فرض کر رکھی ہیں۔ پھر بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اْسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو میں اسکے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے،اسکی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے،اسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اسی کو علامہ اقبال نے یوں شعر کی زبان دی ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا، کار ساز نماز کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ دینِ اسلام میں نماز کا مقام کیا ہے اور اس کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ ایمان اور عقیدہ ہمارے دین کی اساس ہے۔ اس اساس کے ساتھ نماز کا تعلق کیا ہے تو قرآ ن وسنت کی تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان ایک مخفی حقیقت ہے جو دل میں پوشیدہ ہوتا ہے اور نماز اسکے اظہار کا ذریعہ ہے ۔ اسی نمازکو ایمان کے عملی ثبوت کا درجہ حاصل ہے۔ جس طرح انسان کی حقیقت یہ ہے کہ اسکی روح ایک مخفی شے ہے اور جسم ایک ظاہری حقیقت۔ اس طرح دین میں ایمان روح کی ماننداور نماز کی حیثیت جسم کی ہے۔ جب تک روح جسم میں موجودہوتی ہے جسم حرکت کرتا ہے اور عملی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔

جب روح جسم میں نہ ہو تو جسم بے حس وحرکت ہو جاتا ہے ،بعینہ اگر دل میں ایمان ہو تو جسم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں متحرک رہتا ہے اور اس اطاعت کا پہلا مظہر نماز ہے۔ جب روح جسم میں باقی نہ رہے تو جسم مٹی میں ڈال دیا جاتا ہے، اب اس کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح منافقین کی نمازکا حال ہے۔ جو لوگ عقیدے کے نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں جیسے عبداللہ بن اْبی اور دیگر منا فقین تھے، اْن کی نماز اس وجہ سے قبول نہیں ہوتی کہ اْن کے دل ایمان سے خالی تھے، تو جب ایمان کے بغیر نماز قابلِ قبول نہیں تو نماز کے بغیر ایمان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ اس لئے بغیر نماز کے ایمان کا دعوی بلا دلیل ہے۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں بیان کیاہے: ’’پس نہ تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی۔ ‘‘(القیامہ31)۔ یہاں عدم تصدیق کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ وہ شخص نماز نہیں پڑھتا۔اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ تصدیق کرنے والوں میں شامل ہو جاتا تو نماز بھی لازماً پڑھتا۔اس کے نماز نہ پڑھنے کو اس کے عدم تصدیق کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو نبی کریم نے یوں بیان کیا ہے: ’’جس کو مسجد کی طرف آتے جاتے دیکھو ،اْس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘ سورۃالبقرہ میں ارشاد فرمایا :

’’وہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ یہاں بھی ایمان کی دلیل نماز ہے۔ سورۃالتوبہ میں ارشاد فرمایا : ’’اگر یہ توبہ کر لیں (یعنی کفر اور شرک کو چھوڑ دیں)نماز قائم کریں اور زکٰوۃ ادا کریں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘(التوبہ11)۔

یہاں اسلام کے رشتہ اخوت کو نماز اور زکٰوۃ سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ دوسری جگہ اسی سورۃالتوبہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکین کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو،انہیں گرفتار کرو،ان کا محاصرہ کر لو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو۔ ہاں!اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اورزکٰوۃ ادا کرنے لگیں تو انہیں چھوڑ دو۔‘‘(التوبہ5)۔ معلوم یہ ہوا کہ شرک اور کفر سے توبہ کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ثبوت کے طور پر اہل ایمان میں شامل ہونے اور مسلم حنیف ہونے کے لئے نماز کی پابندی اور زکٰوۃ کی ادائیگی لازمی شرط ہے۔ نبی کریم فرماتے ہیں: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد() اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں۔‘‘(صحیح بخاری)۔ سورہ روم میں ارشاد فرمایا: ’’نماز قائم کرو اور مشرکین کی طرح مت ہو جاؤ۔‘‘(الروم31)۔ صاف ظاہر ہے کہ مشرکین نماز نہیں پڑھتے۔اگر تم نماز چھوڑ دو گے تو مشرکین کی طرح ہو جاؤ گے۔ اللہ کے حبیب فرماتے ہیں: ’’جس نے جان بوجھ کر نمازکوچھوڑ دیا پس اس نے کفر کیا۔‘‘ مسلم شریف کی روایت ہے: ’’بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز قا ئم کرنے سے ہے۔‘‘ ترمذی کی روایت ہے : ’’ہمارے اور کافروں کے درمیان ایک عہد نماز کا ہے، جس نے نماز کو چھوڑدیا اْس نے اس عہد کو توڑ کر کفر کیا۔‘‘ بخاری کی روایت ہے: ’’ جس کی عصر کی نمازضائع ہو گئی اْس کے تمام اعمال برباد ہو گئے۔‘‘ دوسری روایت ہے:

’’اْسکے مال واسباب ضائع ہو گئے۔‘‘ اگر فقط عصر کی نماز ضائع ہونے سے اعمال بربادہو جاتے ہیں تو جن کی ساری زندگی کی نمازیں ضائع ہو رہی ہیں اْن کے اعمال ان کے کس کام آئیں گے۔ غزوہ ا حزاب کے موقع پر مشرکین کے سخت محاصرے کی وجہ سے نبی کریم کی عصر کی نماز قضا ہو گئی۔ آپ نے مشرکین کی لئے یوں بد دعا فرمائی: اللہ ان کی قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے جنہوں نے میری عصر کی نماز ضائع کروائی۔ نبی کریمنے مشرکین سے زخم کھا کر بھی اْنہیں بددعا نہ دی لیکن نماز کے قضا ہونے سے اتنی سخت بددعا دی۔ جو لوگ جانتے بوجھتے نمازوںکو ضائع کر رہے ہیں کیا وہ اس بددعا کے مصداق نہیں بنیں گے؟۔ حضور فرماتے ہیں: ’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی،ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اورہمارا ذبیحہ کھایا ،پس وہ شخص مسلمان ہے۔‘‘ مسلمان ابتدا میں مسجداقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تویہودیوں اور شریر النفس مشرکین نے مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تمہاری پہلی نمازیں تو رائیگاں ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ اور اللہ تمہارے ایمان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا۔‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ نے صلاۃ کی جگہ اِیمان ذکرکر کے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ نمازیں ضائع ہونے کا مطلب ایمان کا ضیاع ہے۔ یہاں نماز کی جگہ ایمان کا ذکر ہے گویا کہ ایمان اور نماز ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں، دو الگ چیزیں نہیں۔ نماز کے بغیر ایمان معتبر نہیں۔ مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ایمان اورنماز کا تعلق جسم و جان کی طرح ہے۔

شیئر: