Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام ، ایمان اور احسان، دین کے 3مراتب

عبادت میں ’’احسان‘‘ یہ ہے کہ اس کو ظاہری وباطنی حسن کے ساتھ ادا کیا جائے،رسول اللہ کی متابعت ہو اورامراض قلبیہ سے پاک ہو- - -

 

* * * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * * *

لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ کی ذا ت ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور خوب بنائی۔ اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔ نبی کریم نے حدیث جبریل میں ارشاد فرمایا کہ ’’احسان‘‘ یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ، اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہو تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے، جس سے مراد ہے کہ بندئہ مؤمن یوں عبادت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حضور میں ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بندہ کے اندر خشیت اور خضوع ہو اور بندہ کی اللہ تعالیٰ کی طرف کمال توجہ ہو۔ ’’احسان‘‘ کے بارے میں بھی مختصر تعارف کے بعد جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بندوں کو ’’احسان‘‘ کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں ’’عدل‘‘ اور ’’احسان‘‘ کا حکم دیتاہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرماتاہے:آپ میرے بندوں سے کہہ دیں کہ، وہ حسین ترین قول اختیار کریں۔ نبی کریم نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں ’’ احسان‘‘ (حسن صناعت) اور حسن کار کردگی کا لکھ دیا ہے سو جب تم قتل کرو تو قتل کا حسین ترین طریقہ اختیار کرو اور جب تم ذبح کرو تو ذبح کا حسین ترین اسلوب اختیار کرو۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے مؤمن بندوں سے فرماتا ہے:تم احسان کرو ،یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ نیز فرمایا : سو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا حسین ثواب بھی اور اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتاہے ۔ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دین میں شارع کو ہم سے ہر موقع پر اور ہرایک کے ساتھ ’’احسان‘‘ مطلوب ہے۔ قرآن کریم نے احسان کے بیان کے لئے کئی اسالیب اختیار کئے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ’’کیا احسان کا بدلہ احسان ہی نہیں ہوتا‘‘؟ دوسری جگہ فرمایا ’’جنہوں نے احسان کیا ان کے لئے ’’حسنیٰ‘‘ حسین ترین بدلہ اور اس پر اضافہ بھی ہوگا‘‘۔ حضور نے فرمایا کہ ’’حسنیٰ‘‘ تو جنت ہے اور اضافہ جناب باری تعالیٰ کی طرف نظر کرنا ہے۔ باری تعالیٰ کی رؤیت اور زیارت یہ مؤمنین محسنین کے لئے اضافہ کے طور پر انہیں نصیب ہوگی۔ اللہ کی عبادت میں ’’احسان‘‘ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت مشاہدہ سے یا مراقبہ سے کرنا ہے تو ان کی جزاء بھی آخرت میں دنیا میں ان کے عمل کی ہم مثل رکھی گئی ہے۔ ’’احسان‘‘ زندگی کے ہر موقف اور ہر موقع پر اور ہر ایک کے ساتھ شرعاً مطلوب ہے۔

باری تعالیٰ کو محبوب بھی ہے، پھر احسان کے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے شب وروز کے کئی مواقع کا قرآن و سنت میں ذکر ہے۔ اللہ کی عبادت میں احسان، والدین کے ساتھ احسان، خاوند کا بیویوں کے ساتھ احسان، بیویوں کا خاوند کے ساتھ احسان، بیٹیوں کے ساتھ احسان، بیواؤں ، مساکین، اور یتیموں کے ساتھ احسان، ہمسایہ کے ساتھ احسان، نوکروں چاکروں سے احسان، عام انسانوں سے احسان۔ اللہ کی عبادت میں احسان یہ ہے، نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احسان کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے اوراللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کی عبادت میں ’’احسان‘‘ یہ ہے کہ عبادت کو ظاہری وباطنی حسن کے ساتھ ادا کیا جائے، ظاہری طور پر بھی جناب رسول اللہ کی کمال متابعت ہو اور باطنی طور پر بھی عبادت ریا کاری، عجب اور دیگر امراض قلبیہ سے مکمل طور پر پاک ہو کہ اس سے ، خالصتاً اللہ کی رضا مقصود ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’تم اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو‘‘

نیز ارشاد ربانی ہے ، یقینا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ احسان کرنے والے ہیں۔ پھر والدین کے ساتھ احسان کیا ہے، اس کی اہمیت جانیں کہ باری تعالیٰ نے اپنی عبادت کا قرآن میں حکم دیا تو وہیں پر والدین کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا۔ ارشاد ربانی ہے ’’تم اللہ کی عبادت کرو اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔والدین کے ساتھ احسان ایسا محکم حکم ہے جو پہلی شرائع میں بھی موجود رہا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرنا‘‘۔

والدین کے ساتھ احسان ان کے ساتھ حسن معاشرت، ان کے لئے تواضع اختیار کرنا۔ ان کے لئے رحمت کے بازو ہردم جھکا ئے رکھنا۔ ان کے سامنے آواز کو پست رکھنا۔ ان کی سرزنش نہ کرنا۔ ان سے رحمت وشفقت سے معاملہ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم سے سوال کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟آپ نے فرمایا تیری ماں، پھر اس نے دوسری بار بوچھا کہ اس کے بعد؟فرمایا :تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کہ پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا :تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کہ پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا: تیرا باپ۔ حضرت حسن بصری سے کسی نے پوچھا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کیا ہے؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ تو جس کا مالک ہوا اسے ان کے لئے قربان کردے۔ وہ تجھے جو حکم دیں اگر اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تو اسے پورا کرے۔ لہٰذا والدین کے ساتھ نیکی اور احسان، اللہ اور رسول کی نافرمانی کے علاوہ میں ان کی مکمل اطاعت ہے۔ ان کی ایذا رسانی سے مکمل اجتناب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ان کو ’’اف‘‘ تک نہ کہو، انہیں نہ جھڑکواور ان سے بات بھی نرمی سے کرو۔ خاوند کا بیوی کے ساتھ احسان بمطابق حکم ربانی یوں ہے، تم ان کے ساتھ معاشرت کرو ،ایسے اسلوب کے ساتھ جو معروف ہو ، ایسا معاملہ کرو جو انہیں محبوب اور مرغوب ہوجسے اللہ بھی پسند کریں اللہ کے رسول بھی پسند کریں اور لوگوں کے ہاں بھی وہ پسندیدہ ہو۔ آنحضرت نے حضرت سعد بن وقاص ؓ کو فرمایا کہ تو جو نان ونفقہ صرف کرے جس سے اللہ کی رضا مطلوب ہو، اس پر تو مأجور ہے، اللہ کے ہاں سے اجر پائے گا۔ حتی کہ وہ لقمہ جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔ لہٰذا خاوند کا بیوی سے حسن معاشرت، اس کی ایذاء سے اجتناب، اور اس کے ساتھ حسن معاملہ ہے۔

بیوی کا خاوند کے ساتھ احسان یہ ہے کہ وہ امانت دار ہو، صالح ہو، صابرہ ہو، وفا شعار ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’پس صالح عورتیں صبر کرنے والی ، ان امور کی حفاظت کرنے والی ہیں جس کی حفاظت کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے‘‘۔ آنحضرت نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے مال اور اولاد کی نگران ہے۔ نیز فرمایا کہ جو عورت ایسی ہو کہ اسکا خاوند اس پر راضی اور خوش ہے، وہ جنتی ہے۔ بچیوں کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ان کی تربیت میں حسن اسلوب کو اختیار کیا جائے، انہیں اللہ تعالیٰ اور رسول کے فرامین پر عمل کرنے کی عادت ڈالی جائے، انہیں اسلامی آداب کا پابند بنانے کی تربیت دی جائے، آنحضرت نے فرمایا کہ جس نے دو بچیوں کی حسن تربیت کی حتی کہ وہ بالغ ہو گئیں وہ جنتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے گھر آئی اس کے ساتھ اسکی دو بچیاں تھیں، اس نے سوال کیا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ بھی نہ تھا، وہ میں نے اسے دیدی، تو اس نے وہ کھجور دو بچیوں میں تقسیم کردی۔ اس نے خود اس میں سے کچھ نہ کھایا، پھر وہ اٹھی اور چلی گئی ۔ پھر آنحضرت گھر تشریف لائے تو میں نے یہ قصہ آپ کو سنایا تو آپ نے فرمایا:

جس شخص کی اللہ نے بچیوں سے آزمائش کی او ر اس نے ان کے ساتھ احسان کیاوہ اس کے لئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔ بیوہ اور مسکین ویتیم کے ساتھ احسان کے بارے میں آنحضرت نے فرمایا :بے خاوند عورتوں اورمسکین کی کفالت کے لئے کوشاں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے یا آپ نے فرمایا :اس نمازی کی طرح ہے جو اسے ترک نہ کرے اور اس روزہ دار جیسا ہے جو افطار نہ کرے۔ یعنی ہمیشہ نماز اور روزہ میں رہے۔ پھر آنحضرت نے فرمایا کہ اپنے یتیم یا غیر کے یتیم کی کفالت کرنے والااور میں جنت میں اس طرح ہونگے، آپ نے انگوٹھے کے ساتھ والی اور درمیانی انگلی کو جمع کر کے یہ مذکورہ ارشاد فرمایا۔امام نووی فرماتے ہیں کہ اپنے یتیم سے مراد، اسکا قریبی یتیم ہے، جیسے یتیم کی ماں اس کی کفالت کرے، یا اس کا دادا کفالت کرے، یا اس کا بھائی کفالت کرے، یاوہ اس قرابت والوں میں سے کوئی ہو جبکہ غیر وہ ہے کہ کسی کفالت کرنے والے اور یتیم میں کوئی قرابت داری نہ ہو۔ ہمسایہ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ بندئہ مؤمن اپنے ہمسایہ کی معاشی دینی اور اصلاحی خدمت کرے۔ چاہے وہ مال کے ہدیہ سے ہو یاقول صالح کہ اسے عمل صالح کی دعوت دے یا اس کے ساتھ قول وفعل میںشفقت ورحمت سے معاملہ کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے: تم اللہ کی عبادت کرو، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، ماں باپ سے احسان کرو، قرابت دار سے یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ سے اور دور کے ہمسایہ سے احسان کرو۔ آنحضرت نے فرمایا :جبریل مجھے ہمسایہ کے بارے وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث ٹھہرادیں گے۔ نیز فرمایا کہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اسے اپنے ہمسایہ سے ’’احسان‘‘ کرنا ہوگا۔

 

  مکمل مضمون روشنی 6جنوری2017کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں

شیئر: